مکان لے سکتی ہیں جبکہ بیٹے اور بیٹیاں سب شادی شدہ ہیں ۔ ج: والد کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان اپنی زندگی میں عدل وانصاف سے کام لے صحیح بخاری کی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی حدیث اور دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو اپنی اولاد خواہ بیٹے ہوں خواہ بیٹیاں خواہ ملے جلے میں عدل ومساوات سے کام لینا ضروری ہے اگر والد صاحب کسی وجہ سے اپنے فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لے رہے ہیں تو اولاد خواہ بیٹے ہیں خواہ بیٹیاں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی خلاف شرع تقسیم کو نہ قبول کریں اور نہ خلاف شرع تقسیم میں ان کا ساتھ دیں ۔ واللہ اعلم ۷/۳/۱۴۲۰ ھ س: (۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جس کی بیوی اور بچہ نہیں ہے اس کی جائیداد اڑھائی ایکڑ ہے اس نے عرصہ آٹھ سال سے اپنے ایک بھانجے اور دو بھانجیاں اپنی رونق اور گھر کی آبادی کے لیے اپنے پاس رکھے اب بھانجا مطالبہ کرتا ہے کہ اڑھائی ایکڑ زمین میرے نام لکھوا دو کیا یہ شخص زمین بطور ہبہ بھانجے کے نام لگوا سکتا ہے یا نہیں جب کہ اس شخص کے دو بھائی بھی زندہ ہیں جن میں سے ایک کی اولاد بھی ہے اور ایک بے اولاد۔ (۲) کیا یہ شخص زمین فروخت کر کے مکمل رقم راہِ ﷲ خرچ کر سکتا ہے۔ (۳) کیا زمین فروخت کر کے کچھ رقم سے فریضہ حج ادا کر کے اور کچھ رقم کا اور کوئی کاروبار کر سکتا ہے ؟ (۴) کیا عینی بہن کے نام لکھوا سکتا ہے قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں ۔ محمد بشیر آف بورے پیارے ضلع گوجرانوالہ ج: الجواب بعون اللّٰه الوہاب ۔ (۱) صورت مسؤلہ میں سائل محمد بشیر کلالہ ہیں اور ان کے دو بھائی عینی اور ایک بہن عینی زندہ ہیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آخری آیت میں فرمایا :﴿وَإِنْ کَانُوْا إِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾ [اور اگر کئی شخص ہوں اس رشتہ کے کچھ مرد اور کچھ عورتیں تو ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے] موجودہ صورت حال میں محمد بشیر کے بھانجے اور بھانجیاں اس کے وارث نہیں کیونکہ یہ ذوی الارحام میں شامل ہیں اور ذوی الارحام عصبات کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے اس لیے سائل اپنی جائیداد زمین وغیرہ بھانجے اور بھانجیوں کے نام منتقل نہیں کر سکتا ہاں ان کے لیے وصیت کر سکتا ہے وہ بھی اپنی کل جائیداد کے تیسرے حصے تک ۔ (۲) سارے مال کو فروخت کر کے راہ اللہ میں خرچ کرنے سے وارث محروم ہوتے ہیں اور شریعت میں وارثوں کو محروم |