س: (۱) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فتویٰ مسلم شریف میں موجود ہے کہ عاشوراء کا روزہ ۹ تاریخ کا ہے [1] جبکہ ترمذی شریف میں انہی کا ایک فتویٰ موجود ہے کہ تم ۹ ۔ ۱۰ کا روزہ رکھو اب مسلم کے راوی بھی ابن عباس ہی ہیں اور خود ہی فرما رہے ہیں کہ ۹ اور ۱۰ کا روزہ رکھو یہ بات کہاں تک درست ہے ؟ (۲) اگر ہم اسی بات سے ۱۰ کے روزے کومنسوخ کر کے ۹ میں تبدیل کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں آئندہ سال زندہ رہا تو ۹ کا ضرور روزہ رکھوں گا اسی طرح تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آئندہ سال زندہ رہا تو حج تمتع کروں گا تو اس سے دوسرے حج منسوخ ہو جائیں گے ۔ (۳) مسند احمد میں حدیث ہے کہ عاشورہ کے ایک دن بعد کا یا پہلے کا روزہ رکھو (اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے) لیکن جو دو روزوں کی دلیل لیتے ہیں اس کی تائید میں یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کا روزہ نہ رکھو یا تو پہلے رکھو یا جمعہ کے بعد والے دن رکھو اب اس میں کیا جمعہ کا روزہ رکھنا ہے یا نہیں ؟ صلاح الدین غوری ج: (۱) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نو والا فتویٰ مرفوع حدیث کے موافق ہے بلکہ صحیح مسلم کی حدیث کے الفاظ اس بات میں نص صریح ہیں کہ انہوں نے نو والا فتویٰ حدیث مرفوع کی بنیاد پر دیا ہے جبکہ ان کے نو اور دس والے فتویٰ کی پشت پر کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ہے بلکہ ان کا یہ فتویٰ نو والی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے لہٰذا ان کا نو والا فتویٰ ہی راحج ہے ۔ نیز نو والا فتویٰ صحیح مسلم میں ہے اور نو اور دس والا فتویٰ مصنف عبدالرزاق میں ہے اور محدثین نے اصول حدیث میں وجوہ ترجیحات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث کو بوقت تعارض دوسری کتب کی احادیث پر ترجیح ہو گی‘‘ اس لیے ان کا نو والا فتویٰ راحج ہے ۔ نیز نو والے فتویٰ کے علاوہ جتنے فتوے ہیں وہ نو والی صحیح مرفوع حدیث کے مخالف ہیں جب کسی کا فتویٰ مرفوع حدیث کے خلاف آ جائے خواہ وہ اس حدیث کے راوی ہی کا کیوں نہ ہو تو عمل مرفوع حدیث پر کیا جائے گا نہ کہ فتویٰ پر فَإِنَّہُ لاَ حُجَّۃَ لِأَحَدٍ مَعَ النَّبِیِّ صلی للّٰهُ علیہ وسلم ا س موضوع پر ارشاد الفحول میں بہت اچھی بحث کی گئی ہے اس کا مطالعہ فرما لیں ۔ (۲) اس مقام پر دو فرق ہیں ۔ پہلا فرق : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کوئی حج مفرد کر رہا ہے ، کوئی تمتع اور کوئی قران ادھر ایسا نہیں ہے کہ کسی نے دس کا روزہ رکھا ہوا ہو اور کسی نے نو کا اور ایسا بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے |