Maktaba Wahhabi

152 - 236
راہنمائی کرے۔فریقِ ثانی کا بھی صحیح قول یہی ہے کہ لقمہ دینا جائز ہے،چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی’’بہشتی زیور‘‘میں لکھتے ہیں: ’’صحیح ہے کہ اگر مقتدی اپنے امام کو لقمہ دے تو نماز فاسد نہ ہو گی خواہ امام بقدرِ ضرورت قراء ت کر چکا ہو یا نہیں،قدرِ ضرورت سے مقدار قراء ت کی مقصود ہے جو مسنون ہے۔‘‘[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’جزء القراءة‘‘میں امام کو لقمہ دینے کے جواز سے مانعینِ قراء ت پر نقض وارد کیا ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’سلیمان بن حرب رحمہ اللہ نے حضرت اُبی رضی اللہ عنہ والی حدیث سے قراء ت کرنے پر استدلال کیا ہے،جس میں امام کو لقمہ دینے کا ذکر ہے اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے امام کو لقمہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔‘‘[2] لقمہ دینے کے جواز پر فریقِ ثانی کا عمل مشاہدے میں آتے رہنے والی چیز ہے،خصوصاً نمازِ تراویح میں،لہٰذا اگر استماع و انصات کو علی الاطلاق واجب قرار دیا جائے تو لقمہ دینے کا جواز کہاں سے نکلے گا؟ جس طرح مطلق و عام حکم سے بعض احادیث کی بنا پر لقمہ دینے کو ایک الگ صورت مانا گیا ہے،بالکل اسی طرح مقتدی کے سورت فاتحہ پڑھنے کا حکم بھی بخاری و مسلم اور دوسری کتب کی صحیح احادیث کی رو سے اس آیت کے حکم سے الگ ہے۔[3] 7۔ نیت کے مسائل پر مشتمل ہماری کتاب سے متعلق ہمارے مطبوعہ رسالہ میں تفصیل کے ساتھ یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ اس کا اصل مقام دل ہے اور
Flag Counter