Maktaba Wahhabi

148 - 236
حکموں کی تعمیل بھی ہو جائے گی،خطبہ بھی سننا اور درود و سلام بھی پڑھنا۔‘‘ یہا ں سوچنے کی بات یہ ہے کہ مقتدی بھی دو ہی اوامر کا پابندہے:ایک تو بحکمِ آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ خاموش رہ کر قرآن سننا اور دوسرا بحکمِ احادیثِ قراء تِ خلف الامام((لَا تَفْعَلُوْا اِلَّا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَاِنَّہٗ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِھَا)) وغیرہا اس کو امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنا چاہیے۔ اب اگر مقتدی بلند آواز سے پڑھے گا تو امام کی آواز سننے میں خلل واقع ہو گا اور ان دونوں حکموں کی بیک وقت تعمیل نا ممکن ہو گی اور اگر مقتدی امام کے پیچھے آہستگی سے پڑھے گا تو امام کی قراء ت سننے میں کوئی تشویش و خلل نہیں آئے گا اور ان دونوں حکموں کی تعمیل بھی احسن طریقے سے ہو جائے گی۔ اس طرح خطبہ جمعہ کے دوران میں درود و سلام پڑھنے کا معاملہ اور امام کی قراء ت کے دوران مقتدی کے سورت فاتحہ پڑھنے کا معاملہ ایک جیسا ہی ہے۔جب فریقِ ثانی کے علما وہاں اجازت دیتے ہیں،بلکہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے بقول’’فَکَانَ إِحْرَازاً لِلْفَضِیْلَتَیْنِ‘‘والا معاملہ ہے کہ آہستہ درود وسلام پڑھنے سے دونوں فضیلتیں(خطبہ سننا اور درود و سلام) حاصل ہوں گی تو پھر آہستہ سورت فاتحہ پڑھنے سے بھی دونوں فضیلتیں حاصل ہوں گی،لہٰذا آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ کی روسے زیادہ بلند آواز کے ساتھ مقتدی کے فاتحہ پڑھنے کی ممانعت ثابت ہو سکتی ہے،آہستگی سے پڑھنے کی ہرگز نہیں۔[1] چھٹا جواب: اس آیت سے استدلال کا چھٹا جواب یہ بھی دیاگیا ہے،جسے الزامی جواب
Flag Counter