Maktaba Wahhabi

153 - 236
دل سے قصد و ارادہ ہی نیت ہے،اس کے لیے زبان سے الفاظ ادا کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے،لہٰذا ثابت حد تک رہنے ہی میں برکت ہے،لیکن فریقِ ثانی کے افراد نیت کا تلفظ بھی کرتے ہیں اور امام کی قراء ت کے دوران ہی میں وہ جب جماعت سے مل کر نمازِ عشا پڑھنے لگتے ہیں تو یوں کہتے ہیں: ’’چار رکعت نمازِ فرض،اللہ تعالیٰ کے لیے،پیچھے اس امام کے،منہ قبلہ شریف کی طرف،اللہ اکبر۔‘‘ اب ان الفاظ سے آخری دو لفظ بمعنی تکبیرِ تحریمہ کو شرط مان کر اگر الگ کیا جائے تو باقی نیت کے الفاظ رہ جائیں گے،جو تقریباً نصف سورت فاتحہ کے بقدر ہوتے ہیں اور ان الفاظ کو زبان سے ادا کرنا کسی کے نزدیک شرط بھی نہیں،زیادہ سے زیادہ محض مستحسن کہا گیا ہے۔جب دورانِ قراء ت ان الفاظ کی ادائیگی جائز،بلکہ مستحسن ہے تو سورت فاتحہ پڑھنے میں کیا حرج ہو سکتا ہے؟ غرض: 1۔ جب فجر کی جماعت کھڑی ہونے اور امام کے قراء تِ جہری کرنے کے دوران میں چھوٹا سا عمل نہیں،بلکہ پوری دو رکعتیں پڑھی جا سکتی ہیں اور پھر بھی آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ 2۔جب امام کے قراء ت شروع کر چکنے کے دوران ہی میں بعد میں آکر ملنے والا نمازی((سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ)) پڑھ سکتا ہے اور اِس سے وہ اُس آیت کا مخالف شمار نہیں ہوتا۔ 3۔ جب خطبہ جمعہ کے دوران میں یاد آنے پر نمازی اپنی فجر کی نماز قضا کر سکتا ہے،بلکہ شیخین کے نزدیک نمازِ جمعہ کی جماعت کے دوران بھی فجر کی قضا کر سکتا ہے اور اس کا یہ فعل اس آیت کی زد میں نہیں آتا۔
Flag Counter