Maktaba Wahhabi

221 - 236
اس سے خارج ہے،ایسے اجماع کو کیسے اجماع کہا جاسکتا ہے؟ ہاں اگر ذہنی تحفظات اس بات پر آمادہ کردیں تو وہ دوسری بات ہے،لیکن علم و تحقیق کی دنیا میں ایسا ممکن نہیں۔[1] آثارِ تابعین رحمہم اللہ اور ان کے جوابات جب یہ مسئلہ صحابہ کے ما بین مختلف فیہ ہے تو پھر تابعین کے آثار سے اپنے موقف کی تائید حاصل کرنا صحیح نہیں،بلکہ اصول کے خلاف ہے،خصوصاً جب کہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان’’مناقب الإمام أبي حنیفہ‘‘(ص:۲۰) میں نقل کیا گیا ہے: ’’وَاَمَّا إِذَا انْتَہَیٰ الْأَمْرُ إِلَیٰ إِبْرَاہِیْمَ وَ الشَّعْبِيِّ وَالْحَسَنِ وَ عَطَائٍ فَاجْتَہِدْ کَمَا اجْتَہَدُوْا‘‘[2] ’’جب معاملہ(مسئلہ) ابراہیم،شعبی،حسن بصری اور عطا رحمہم اللہ تک پہنچ جائے تو تم بھی ایسے ہی اجتہاد کرو،جیسے انھوں(اُن بزرگوں) نے اجتہاد کیا۔‘‘ لہٰذا جب امام موصوف بھی آثارِ تابعین کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے اور بالاتفاق یہ حجت بھی نہیں ہیں تو پھر انھیں ذکر کرنے کی کوئی خاص ضرورت تو نہیں رہ جاتی،لیکن چونکہ فریقِ اول کی طرف سے ان کی تائید میں پیش کیے جانے والے آثار ِ تابعین میں سے بھی بعض کا تذکرہ کیا گیا تھا،لہٰذا فریقِ ثانی کی طرف سے بھی بعض آثار کا تذکرہ کرنا عین قرینِ انصاف ہو گا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ فریقِ اول کی تائید میں جن تابعین کے آثار ذکر کیے گئے ہیں،وہ مقام و مرتبے میں قد کاٹھ والی شخصیات ہیں۔جن میں امام سعید بن جبیر،
Flag Counter