Maktaba Wahhabi

211 - 236
میں صراحت موجود ہے کہ وہ صرف جہری نمازوں میں قراء ت کے قائل نہیں تھے اور سری نمازوں میں وہ بھی پڑھتے تھے،جیسا کہ امام مالک کی تبویب’’بَابُ تَرْکِ القراءة خَلْفَ الْإِمَامِ فِیْمَا یَجْھَرُ فِیْہ‘‘سے اشارہ ملتا ہے اور جیسا کہ امام الکلام میں علامہ عبد الحی نے بھی تسلیم کیا ہے(ص:۲۲۱)۔ فریقِ اول کی تائید کرنے والے آثار میں اثرِ ہفتم بھی تھا،جو پانچ مختلف اسانید سے ہم ذکر کر چکے ہیں۔اب رہے وہ آثار جن میں سری میں بھی نہ پڑھنے کا ذکر آیا ہے تو ان کا اعتبار نہیں ہوگا،کیو نکہ امام بیہقی نے’’السنن الکبریٰ‘‘(۲؍۱۶۱) میں لکھا ہے: ’’وَ الْمُثْبِتُ أَوْلَیٰ مِنَ النَّافِيْ‘‘ ’’ثابت کرنے والا نفی کرنے والے سے اولیٰ ہوتا ہے۔‘‘ یہ ایک عام اصول ہے۔اس اعتبار سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا سری نماز میں قراء ت خلف الامام کا عمل ہی اثبت و ارجح ہے،لہٰذا ان نفی کرنے والے آثار میں مانعینِ قراء ت کے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔[1] ساتواں اثر: سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت وہب بن کیسان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے: ’’مَنْ صَلّٰی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیْھَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ اِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ وَرَائَ الْإِمَامِ‘‘[2]
Flag Counter