Maktaba Wahhabi

188 - 236
لکھا ہے: ’’وَالْمُنَازَعَۃُ إِنَّمَا تَکُوْنُ مَعَ جَہْرِ الْمُؤْتَمِّ لَا مَعَ اِسْرَارِہٖ‘‘[1] ’’منازعت صرف اسی صورت میں ہوتی ہے کہ جب مقتدی بلند آواز سے قراء ت کرے،سراً قراء ت کرنے سے نہیں۔‘‘ الغرض ان تمام ائمہ لغت اور شارحینِ حدیث کی تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ منازعت صرف اسی صورت میں ہوتی ہے جب مقتدی بلند آواز سے قراء ت کریں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا روکنا بھی بلند آواز والی قراء ت سے تھا اور امام کے پیچھے جہراً پڑھنے کو کوئی بھی جائز نہیں سمجھتا،رہا معاملہ آہستگی سے قراء تِ فاتحہ کا تو((مَا لِيْ أُنَازَعُ الْقُرْآنَ)) والی حدیث سے اس کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔ چوتھا جواب: اس حدیث سے اور خصوصاً اس کے آخر میں وارد اثر سے زیادہ سے زیادہ جہری نمازوں میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے قراء ت چھوڑنے کا پتا چلتا ہے،مگر اس سے سری نمازوں میں قراء ت کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی۔پھر اس سے مطلق ممانعت پر استدلال کا کیا معنی ہوا؟جب کہ جہری میں سکتات میں قراء ت کے جواز کا ثبوت بھی ذکر کیا جا چکا ہے،لہٰذا اس حدیث سے دلیل لینا صحیح نہیں ہے۔ پھر اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا فتویٰ بھی سری و جہری تمام نمازوں میں مقتدی کے لیے قراء تِ فاتحہ کے ضروری ہونے کا ہی ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے،اس لیے بھی یہ حدیث قابلِ احتجاج نہیں رہتی اور حضرت عبادہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی احادیثِ خداج۔احادیثِ فاتحہ خلف الامام اور فتویٰ
Flag Counter