Maktaba Wahhabi

94 - 236
نمازوں کے لیے یہ کیسے دلیل بنے گی؟[1] 2۔ دوسری بات یہ کہ اگر اسے عام اور صحیح بھی سمجھ لیں تو یہ منسوخ ہو گی،کیوں کہ خود فریقِ ثانی کا بنایا ہوا اصول ہے کہ اگر راوی کا عمل روایت کے خلاف ہو تو وہ روایت منسوخ شمار ہو گی اور اس روایت کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل و فتویٰ ذکر کیا جا چکا ہے کہ وہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت شمار نہیں کیا کرتے تھے۔ 3۔ تیسری بات یہ کہ اس میں رکعت پا لینے کا ذکر ہے نہ کہ رکوع پا لینے کا،لہٰذا یہ اس مسئلے میں دلیل کیسے ہو گی؟ دوسری دلیل: اس سلسلے میں دوسری دلیل کے طور پر جو حدیث پیش کی جاتی ہے،وہ بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے،جس میں ہے: ((مَنْ أَدْرَکَ رَکْعَۃً مَعَ الْاِمَامِ قَبْلَ اَنْ یُّقِیْمَ صُلْبَہٗ فَقَدْ اَدْرَکَہَا)) [2] ’’جس نے امام کے ساتھ رکعت کو پا لیا قبل اس کے کہ وہ اپنی کمر سیدھی کرے(رکوع سے کھڑا ہو) اُس نے اُسے پا لیا۔‘‘ اس حدیث سے استدلال بھی کئی وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے،کیوں کہ: 1۔ اس کی سند میں ایک راوی یحییٰ بن حمید ہے،جس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’جزء القراءة‘‘میں کہا ہے کہ یہ مجہول ہے،اس کی بیان کردہ حدیث پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔مرفوعاً اس کی حدیث صحیح نہیں اور یہ راوی اہلِ علم کے نزدیک قابلِ حجت نہیں ہے۔[3]
Flag Counter