Maktaba Wahhabi

232 - 236
اُن دونوں کا دوسرا قول یہ ہے کہ امام کے پیچھے قراء ت کرنا،حدیث ِ مرفوع میں ثابت ہونے کی وجہ سے سری نمازوں میں بھی مکروہ نہیں ہے،یعنی احتیاطاً قراء ت کرنا اچھا ہے،اور وہ مرفوع حدیث یہ ہے: امام کے پیچھے فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو۔دوسری روایت میں ہے: جب میں جہری قراء ت کروں تو تم سورت فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو۔ امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ پہلے پہل امام ابو حنیفہ،امام محمد رحمہما اللہ اور دیگر احناف،امام کے پیچھے سری و جہری نمازوں میں عدمِ قراء ت کے قائل تھے۔اور پھر(احادیث سے اس کے ثبوت کے بعد) امام ابو حنیفہ و امام محمد رحمہما اللہ دونوں نے اپنے پہلے قول(عدمِ قراء ت) سے رجوع فرما لیا اور علیٰ سبیل الاحتیاط فاتحہ پڑھنے والے دوسرے قول کو اختیار فرمایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ امام صاحب نے بھی احادیثِ صحیحہ و صریحہ کے پیشِ نظر بالآخر اپنے پرانے قول سے رجوع کرکے مقتدی کے لیے ﴿ الْحَمْدُ لِلّٰهِ﴾ پڑھنے کو مستحسن و مستحب قرار دیا۔امام محمد رحمہ اللہ کی پہلی تصانیف میں تو ممانعت کا ہی قول تھا جیسا کہ امام عبد الوہاب شعرانی کے ذکر کردہ الفاظ سے پتا چلتا ہے اور پھر وہ استحسان کا ذکر بھی کر گئے ہیں،لیکن وہ ان کی بعد والی کتب میں ہے،جیسا کہ خود فقہائے احناف میں سے صاحبِ ہدایہ نے بھی: ’’وَیُسْتَحْسَنُ عَلیٰ سَبِیْلِ الْاِحْتِیَاطِ فِیْمَا یُرْوَیٰ عَنْ مُحَمَّدٍ‘‘کے الفاظ سے نقل کیا ہے۔ امام محمد رحمہ اللہ کا قول،ہدایہ اور احناف: امام محمد رحمہ اللہ کا یہی قول شیخ نجم الدین زاہدی حنفی نے المجتبیٰ شرح مختصر القدوری میں،علامہ عینی نے البنایہ شرح الہدایہ میں اور دیگر علمائے احناف نے اپنی اپنی
Flag Counter