Maktaba Wahhabi

135 - 236
رحمت ہو۔‘‘ اس آیت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ یہاں دو امر مطلوب ہیں:ایک سننا اور دوسرا چپ رہنا،ان دونوں پر عمل کیا جائے گا اور ان دونوں میں سے سننا جہری قراء ت والی نمازوں کے ساتھ خاص ہے۔چپ رہنا اپنے اطلاق پر باقی رہے گا اور مطلق قراء ت کے وقت چپ رہنا واجب ہو گا۔یہ تو علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کی تقریرِ استدلال ہے،جب کہ عام علمائے احناف بھی اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور سری و جہری تمام نمازوں میں مقتدی کی قراء ت کو ممنوع و منسوخ باور کرواتے ہیں اور فاتحہ خلف الامام کو واجب بنانے والی احادیث کو اس آیت کی معارض سمجھ کر انھیں نہیں مانتے۔ اس دلیل کا پہلا جواب: قائلینِ وجوبِ فاتحہ کی طرف سے مانعین کی اس دلیل کے کئی جوابات دیے گئے ہیں،جن کا ہم اختصار کے ساتھ تذکرہ کیے دیتے ہیں۔چنانچہ اس آیت سے استدلال کرنے اور اس کے نزول سے مقتدی کے لیے سری وجہری نمازوں میں قراء ت کے منسوخ ہونے کی رائے رکھنے والے علمائے احناف میں سے ایک عالم نے اپنی’’کتاب الفرقان‘‘(ص:۸۹،۹۰) میں اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’جو فریق اس کا مدعی ہو کہ اس آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ سے جہری و سری نمازوں میں قراء تِ مقتدی منسوخ ہوئی ہے،اس کے ذمے یہ امر لازم ہے کہ پہلے اس کا ثبوت پیش کرے کہ بوقتِ نزولِ آیت ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ﴾ پانچوں نمازیں فرض ہو چکی تھیں،نیز ان میں سری و جہری کی تفریق ہو چکی تھی اور اس وقت مقتدی لوگ جہری نماز میں جہراً اور سری نماز میں سراً پڑھتے تھے،کیوں کہ امرِ منسوخ کے لیے پہلے سے
Flag Counter