Maktaba Wahhabi

176 - 236
’’اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس خاموش رہنے کا حکم فاتحہ کے علاوہ دوسری قراء ت کے وقت ہے۔‘‘ 6۔ مولانا عبد الحی رحمہ اللہ نے’’غیث الغمام حاشیہ إمام الکلام‘‘(ص:۱۵۹) میں لکھا ہے: ’’دَعْوَیٰ کَوْنِ حَدِیْثِ عُبَادَۃَ مَنْسُوْخاً بِحَدِیْثِ:((وَ إِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا))،مَرْدُوْدٌ‘‘[1] ’’حدیث:((وَ إِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) سے حدیثِ عبادہ رضی اللہ عنہ کے منسوخ ہونے کا دعویٰ ناقابلِ قبول(مردود) ہے۔‘‘ غرض کہ جب دو طرح کی احادیث میں جمع و تطبیق ممکن ہو تو پھر ناسخ و منسوخ کا قاعدہ استعمال کرنا خلافِ اصل ہے۔ چوتھا جواب: قائلینِ وجوب کی طرف سے مانعینِ فاتحہ کوایک الزامی جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ اصولِ فقہ حنفی کی روسے کوئی راویِ حدیث اگر اس حدیث کے خلاف عمل کرے یا فتویٰ دے تو اس کی روایت کردہ وہ حدیث قابلِ استدلال و حجت نہیں ہوتی،بلکہ منسوخ سمجھی جاتی ہے اور یہاں بھی یہ چیز موجود ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث اور خصوصاً اس جملے:((وَ إِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) کے راوی ہیں،وہ خود امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے،جیسا کہ صحیح مسلم کے حوالے سے ان کا اپنے شاگرد حضرت ابو سائب رحمہ اللہ کو ’’اِقْرَأْ بِھَا فِيْ نَفْسِکَ‘‘کے الفاظ سے فتویٰ دینا ہم ذکر کر چکے ہیں۔
Flag Counter