Maktaba Wahhabi

190 - 236
مانعینِ قراء ت کی یہ مشہور و معروف دلیل ہے،حتیٰ کہ ان میں سے علمائے اصول نے آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ کو ساقط عن الاحتجاج بنا کر اپنے منعِ قراء ت کے اثبات کے لیے اس دلیل کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔اس حدیث سے وجۂ استدلال تو بڑی واضح ہے کہ مقتدی کے لیے امام کی قراء ت ہی جب کافی ہے تو پھر مقتدی کو قراء ت کی کیا ضرورت ہے؟ پہلا جواب: اس دلیل کی شہرت کی وجہ سے قائلینِ وجوب فاتحہ نے اس کے دس جواب دیے ہیں،جن میں سے چند اہم جوابات کا خلاصہ ہم ذکر کر دیتے ہیں۔چنانچہ ان کا پہلا جواب یہ ہے: یہ روایت متعدد طُرق سے مروی ہونے کے باوجود بھی ضعیف و کمزور اور ناقابلِ استدلال ہے اور اس کا مرفوع و متصل ہونا ثابت نہیں ہے۔ 1۔ اس کی استنادی حیثیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ مقتدی سے قراء ت کو مطلقاً ساقط کر دینے والوں(احناف) کا استدلال حدیث:((مَنْ کَانَ لَہٗ إِمَامٌ فَقَرَائَۃُ الْإِمَامِ لَہٗ قِرَائَۃٌ)) سے ہے: ’’لٰكِٰنَّہٗ ضَعِیْفٌ عِنْدَ الْحُفَّاظِ،وَقَدْ اسْتَوْعَبَ طُرُقَہٗ وَعِلَلَہُ الدَّارَقُطْنِيْ وَغیرُہُ‘‘[1] ’’لیکن یہ حفاظِ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے اورامام دارقطنی و غیرہ نے اس کے طُرق و علل جمع کیے ہیں۔‘‘ ایسے ہی موصوف نے اپنی دوسری کتاب’’تلخیص الحبیر‘‘میں فائدے
Flag Counter