Maktaba Wahhabi

223 - 236
کی قراء ت سن ہی کیوں نہ رہے ہو،تم خود بھی قراء ت کرو،لہٰذا اس صحیح السند اثر کے مقابلے میں مدلس راوی کے بیان کردہ اس اثر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ 3۔ تیسری بات یہ کہ اِس ضعیف اور اُس صحیح اثر کے ما بین مطابقت و موافقت بھی باآسانی ممکن ہے کہ ممانعت والے اس اثر کو سورت فاتحہ کے ما سوا قراء ت کی ممانعت پر محمول کرلیا جائے اور پہلے والے اثر سے سورت فاتحہ کو خاص کردیا جائے کہ وہ تو پڑھ لے،لیکن اس کے علاوہ کوئی سورت یا قراء ت کا کوئی حصہ نہ پڑھے۔یا تو تطبیق دیں یا پھر وجوبِ قراء ت فاتحہ والے اثر کو صحیح السند ہونے کی وجہ سے مقدم مانیں۔ 2،3،4۔آثارِ علقمہ رحمہ اللہ: 2۔ اسی سلسلے میں دوسرا اثر حضرت علقمہ بن قیس رحمہ اللہ سے’’کتاب الآثار‘‘امام محمد(۱؍۹۳) میں مروی ہے،جس میں امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’مَا قَرَأَ عَلْقَمَۃُ بْنُ قَیْسٍ قَطُّ فِیْمَا یُجْہَرُ فِیْہِ وَلَا فِیْمَا لَا یُجْہَرُ فِیْہِ وَلَا الرَّکْعَتْیَنِ الْأُخْرَیَیْنِ أُمَّ الْقُرْآنِ وَلَا غَیْرَہَا خَلْفَ الْإِمَامِ‘‘[1] ’’علقمہ بن قیس نے امام کے پیچھے جہری و سری نمازوں میں کبھی فاتحہ وغیر فاتحہ کی قراء ت نہیں کی۔(نہ پہلی دو رکعتوں میں) اور نہ آخری دو رکعتوں میں۔‘‘ سند کے اعتبار سے یہ اثر بھی صحیح نہیں،کیوں کہ اس کا ایک راوی حماد بن ابی سلیمان اگرچہ صدوق ہے،لیکن عمر کے آخری پہر میں وہ اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور علامہ ہیثمی نے’’مجمع الزوائد‘‘میں لکھا ہے کہ ان کے پہلے شاگردوں شعبہ،ثوری اور دستوائی کے سوا اگر کوئی حماد سے بیان کرے تو وہ اختلاط کے بعد والی ناقابلِ قبول بات ہوگی(مجمع
Flag Counter