Maktaba Wahhabi

173 - 236
حاکم اور بیہقی نے اس جملے کو شاذ و ضعیف قرار دیا ہے،جس کی تفصیل أبو داود کتاب الصلاۃ باب التشہد(۳؍۲۵۶)مع العون،تفسیرقرطبي(۱؍۱؍۸۴۔۸۷)نصب الرایۃ(۲؍۱۶)سنن دارقطني(۱؍۱؍۳۳۱)’’کتاب القراءة‘‘بیہقي (ص:۸۹)شرح مسلم إمام نووي(۲؍۴؍۱۲۲،۱۲۳) ’’جزء القراءة‘‘إمام بخاري(ص:۱۲۸،۱۲۹)’’تحفۃ الأشراف‘‘مزی (۶؍۴۱۰)،تحقیق الکلام مبارک پوري(۲؍۸۵۔۹۷) اور توضیح الکلام أثري(۲؍۲۴۶۔۲۷۲ و ۲؍۳۲۸۔۳۵۸) میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جب حفاظ و نقادِ حدیث اس جملے کے صحیح یا ضعیف قرار دینے میں مختلف ہیں اور ضعیف کہنے والوں کی تعداد بھی صحیح کہنے والوں سے بہت زیادہ ہے،خصوصاً ضعیف کہنے والوں میں سلطان المحدثین امام بخاری بھی ہیں،جن کا حدیث میں جو مقام و مرتبہ ہے وہ کسی سے بھی مخفی نہیں،ایسے ہی ضعیف قرار دینے والوں میں امام یحییٰ بن معین بھی ہیں تو اس صورت میں ضعیف کہنے والوں کی بات صحیح کہنے والوں پر مقدم ہے۔[1] حدیث کے اس جملے کی جب یہ حیثیت ہے تو اس سے استدلال کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اس جملے اور خصوصاً اس کے ایک لفظ:((فَاَنْصِتُوْا)) کو بعض وجوہات کی بنا پر شاذ اور ضعیف قرار گیا ہے نہ کہ پوری حدیث کو،اہلِ علم اس نقطے سے واقف ہیں،جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔[2] دوسرا جواب: اگر بالفرض((وَ اِذَا قُرِیَٔ قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) کے الفاظ پر مشتمل جملے کو صحیح بھی
Flag Counter