Maktaba Wahhabi

217 - 236
غرض دو حرفی خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ آثار سند کے اعتبار سے صحیح نہیں اور اگر بعض از روئے سند صحیح ہیں تو وہ ممانعت میں صریح نہیں،بلکہ محض محتمل ہیں۔دوسری صحیح و صریح احادیثِ مرفوعہ ہونے کی وجہ سے یا تو ان آثار کی تاویل ضروری ہے یا پھر ان کا ترک،کیوں کہ احادیثِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تو بہرحال آثار سے مقدم ہوں گی اور جو صورتِ حال ان ذکر کیے گئے آثار کی ہے،وہی بعض دیگر آثار کی بھی ہے،لہٰذا طوالت کے خوف سے ان سب کی تفصیل سے صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ قد کاٹھ بڑھانے کے لیے: بعض مولفین نے اپنی کتب میں ترکِ قراء ت کا مسلک دس،ستر اور اسّی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف بھی منسوب کردیا ہے،جیسا کہ’’عمدۃ القاري‘‘(۳/۶/۱۳) میں علامہ بدر الدین عینی نے اور روح المعانی میں علامہ آلوسی نے کیا ہے،انھیں سے مولانا رشید احمد،مولانا سرفراز صفدر اور مولفِ’’الفرقان‘‘نے بھی یہ چیز نقل کی ہے،جب کہ علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ نے تحقیق الکلام جزء دوم میں پہلے اثر کو بالکل بے اثر اور موضوع و من گھڑت ثابت کیا ہے،جسے علامہ عبد الحی حنفی رحمہ اللہ نے بھی غیر مستند بات قرار دیا ہے اور آگے جو بات کا وزن بڑھانے کے لیے اسّی صحابہ کی کی طرف یہ مسلک بیک جنبشِ قلم منسوب کیا گیا ہے،جن میں حضرت علی اور عبادلہ ثلاثہ رضی اللہ عنہم کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے،اس پر علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے صاحب عمدہ القاری پر تعجب کا اظہار کیا ہے اور دعوے سے لکھا ہے کہ اسّی تو کیا اور دس پندرہ بھی کیا،صرف حضرت علی مرتضیٰ اور عبادلہ ثلاثہ رضی اللہ عنہم ہی سے جن کا نام بالتخصیص لیا گیا ہے،قیامت تک قراء تِ فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ہرگز ثابت نہیں کرسکتے۔ پھر اپنی تائید میں علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے امام بخاری کیجزء القراءة‘‘
Flag Counter