Maktaba Wahhabi

144 - 236
جب چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے دس درہم کا تعین اور تیمم میں کہنیوں تک ہاتھ پھیرنے کی تعیین و تخصیص فریقِ ثانی،یعنی مانعینِ قراء ت ایسی احادیث سے کرتے ہیں جو محدثینِ کرام کے نزدیک ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہیں اور صحیح احادیث کی معارض و مخالف بھی ہیں اور اسی نوعیت کے بعض دوسرے مقامات پر بھی قرآن کے عموم کی تخصیص کرتے ہیں اور اسے جائز مانتے ہیں تو پھر آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ سے سورت فاتحہ کی تخصیص کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ جب کہ اس کی تخصیص کے لیے متواتر حدیث موجود ہے۔[1] اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگرچہ قرآن کریم کی تلاوت کے وقت استماع و انصات کا حکم ہے،لیکن مقتدی کو حکم ہے کہ وہ سورت فاتحہ آہستگی سے پڑھ لے کہ اس کے بغیر تو نماز ہی نہیں ہوتی اور پھر خاموشی اختیار کرلے۔ چوتھا جواب: آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ سے استدلال کرنے والے مانعینِ قراء ت کو قائلینِ وجوب کی طرف سے چوتھا جواب یہ دیا جاتا ہے کے اس آیت میں وارد حکمِ استماع و انصات،یعنی سننے اور خاموش رہنے کا یہ معنی یہ بھی ہر گز نہیں کہ مقتدی کے آہستگی کے ساتھ پڑھنے سے استماع و انصات ترک ہوجاتا ہے،بلکہ جب امام جہراً قراء ت کرے اور مقتدی اس کے پیچھے آہستگی سے پڑھتا جائے تو اس میں بہت اچھی طرح استماع و انصات بھی پا یا جائے گا اور قراء تِ فاتحہ پر بھی عمل ہو جائے گا۔ استماع و انصات کی لغوی تشریح بھی ایک طویل بحث ہے اور بالخصوص انصات کا معنی محض سکوت و خاموشی نہیں،بلکہ سکوت مع الاستماع اور عدمِ جہر بھی ہے،
Flag Counter