Maktaba Wahhabi

141 - 236
یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ حدیث و سنت سے مراد صرف وہی احادیث ہو سکتی ہیں جو سند و متن کے اعتبار سے صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہوں،ضعیف روایات تو لائقِ استدلال ہی نہیں ہوتیں اور صحیح و حسن درجے کی احادیث و آثار فریقِ اول کے دلائل کے ضمن میں ذکر کی جا چکی ہیں،جن کی رو سے امام کی طرح مقتدی کے لیے بھی سورت فاتحہ ضروری ہے،چاہے وہ سکتات ہی میں کیوں نہ ہو۔ تیسرا جواب: قرآن کی آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ سے استدلال کرتے ہوئے مانعینِ قراء تِ فاتحہ جو یہ کہتے ہیں کہ وجوبِ قراء ت کا پتا دینے والی احادیث اس آیت کی معارض ہیں،لہٰذا ہم انھیں نہیں مانتے۔ فریقِ اول اس کا یہ جواب دیتا ہے کہ اول تو یہ آیت ہی اصولِ فقہ کی بعض کتب میں مذکور اصول کی روسے محکم نہیں،بلکہ آیتِ سورت مزمل کے معارض ہونے کی وجہ سے ہر دو ہی ساقط الاحتجاج ہیں تو پھر احادیثِ وجوب اس آیت کی معارض کیسے ہوئیں ؟ معارضہ تو تب ہوتا ہے جب یہ آیت خود محکم رہتی،جب کہ یہاں تو اس کے منسوخ ہونے کا احتمال پیدا ہوگیا ہے،جیسا کہ کچھ تفصیل ذکر کی گئی ہے۔[1] اس آیت کو قطعی طور پر محکم ماننے کی صورت میں بھی حال یہ ہے کہ وجوبِ قراء تِ فاتحہ کی احادیث اس آیت کی معارض نہیں بنتیں،بلکہ اس آیت میں وارد عام حکم سے سورت فاتحہ کو مخصوص کرنے والی ہیں۔قرآن میں وارد کسی عام حکم میں سے حدیث کے ساتھ کسی جزو کو خاص کرنا جائز ہے،جسے تخصیص الکتاب بالسنہ کہا جا تا ہے اور بالخصوص اگر کوئی متواتر حدیث ہو تو اس سے بلا اختلاف زیادت علیٰ کتاب اﷲ
Flag Counter