Maktaba Wahhabi

195 - 236
’’قِیْلَ یُحْتَمَلُ أَنَّ الْمُرَادَ:((مَنْ کَانَ لَہٗ إِمَامٌ)) فَلْیَقْرَأْ بِقِرَائَتِہٖ فَاِنَّ قِرَائَۃَ الْإِمَامِ قِرَائَۃٌ لَہٗ فَلْیَقْرَأْ لِنَفْسِہٖ‘‘[1] ’’حدیث:((مَنْ کَانَ لَہٗ إِمَامٌ)) میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ امام کی قراء ت کے ساتھ مقتدی بھی قراء ت کرے،کیوں کہ امام کی قراء ت امام کے لیے ہے اور مقتدی اپنے لیے خود قراء ت کرے۔‘‘ گویا ایک نامور حنفی عالم نے بھی جب اس حدیث کے اس مفہوم کا احتمال پیش کیا ہے تو پھر اس روایت سے استدلال کیونکر صحیح ہوا،کیوں کہ معروف اصولی قاعدہ ہے: ’’اِذَا جَائَ الْاِحْتِمَالُ بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ‘‘ ’’جب احتمال وارد ہوگیا تو استدلال باطل ہو گیا۔‘‘ پانچواں جواب: اس دلیل کا پانچواں جواب یہ دیا گیا ہے کہ قراء ت سے بھی مطلق قراء ت مراد نہیں،بلکہ سورت فاتحہ کے ماسوا کی قراء ت مراد ہے کہ امام جب کسی سورت کی قراء ت کرے تو وہ مقتدی کے لیے بھی کافی ہے۔اگر قراء ت سے مطلق قراء ت مراد لی جائے تو پھر اس عموم میں تو ثنا و دعائے استفتاح بھی آجائے گی،حتی کہ پوری نماز ہی صرف امام کے لیے ہوگی،مقتدی محض کھڑا ہی رہ جائے گا۔اس کے بر عکس حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ والی حدیث خاص سورت فاتحہ کے وجوب سے تعلق رکھتی ہے،لہٰذا اس حدیث کو صحیح ماننے پر قراء ت کو دیگر احادیث کے تناظر میں صحیح مفہوم سے لینا ہو گا اور
Flag Counter