Maktaba Wahhabi

151 - 236
اب یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ فریقِ ثانی کے نزدیک تو تکبیرِ تحریمہ نماز کی شرط ہے اور وہ آیت کے عموم سے خارج ہے،اِس کا جواب یہ ہے: 5۔ تکبیرِ تحریمہ شرط سہی،نمازِ عیدین کی تکبیراتِ زوائد جو تکبیرِ تحریمہ یا تکبیرِ انتقال کے بعد کہی جاتی ہیں،وہ تو شرط نہیں ہیں،پھر دورانِ قراء ت وہ تکبیریں کہنے کی اجازت کس بنیاد پر دی گئی ہے؟ فتاویٰ عالمگیری میں امام محمد رحمہ اللہ کی السیر الکبیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر آدمی نمازِ عید میں امام کے ساتھ پہلی رکعت میں شامل ہو اور امام حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایات کے مطابق تکبیرتِ زوائد کہہ چکا ہو اور قراء ت کر رہا ہو اور یہ آدمی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق شرط یا وجوبِ تکبیر کا قائل ہو تو وہ اپنے مسلک کے مطابق امام کی قراء ت کے وقت تکبیریں کہے اور دوسری رکعت میں امام کی متابعت کرے۔[1] ایسے ہی علامہ ابن نجیم نے’’البحر الرائق‘‘میں لکھا ہے۔[2] ’’رد المحتار المعروف فتاویٰ شامي‘‘میں علامہ ابن عابدین شامی نے بھی اس مسئلے کی تفصیل ذکر کی ہے۔[3] جب دورانِ قراء ت مقتدی کو عیدین کی اضافی تکبیریں کہہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے تو سورت فاتحہ پڑھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ 6۔ ایسی ہی استثنائی صورتوں میں اسے ایک چھٹی چیز امام کو لقمہ دینا بھی ہے کہ اگر دورانِ قراء ت امام سے کوئی بھول ہونے لگے اور وہ قرآن پڑھنے میں غلطی کرے تو مقتدی کے لیے بالاتفاق جائز ہے کہ وہ امام کو لقمہ دے اور اس کی
Flag Counter