Maktaba Wahhabi

150 - 236
نہیں پڑھی تو احناف کے نزدیک اُسی وقت اسے نمازِ فجر پڑھنی چاہیے اور امام ابو حنیفہ اور ابو یوسف رحمہما اللہ تواس سلسلے میں اور بھی سخت ترتھے،وہ کہتے ہیں کہ اگر نمازِ جمعہ شروع ہو،تب بھی پہلے وہ فجر پڑھے اور اگر نمازِ جمعہ فوت ہو گئی تو وہ ظہر پڑھے گا،البتہ امام محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نہیں،پہلے وہ نمازِ جمعہ پڑھ لے اور پھر نمازِ فجر قضا کرے۔یہ بات فتاویٰ تاتار خانیہ کے حوالے سے’’رد المحتار‘‘میں نقل کی گئی ہے۔‘‘[1] گویا فریقِ ثانی کے نزدیک خطبہ جمعہ کے دوران اور شیخین کے نزدیک تو نمازِ جمعہ کے دوران بھی فجر کی قضا کرنا جائز ہے اور آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ کے باوجود یہاں استثنا کیا گیاہے اور دورانِ خطبہ یا دورانِ نمازِ جمعہ،نمازِ فجر پڑھنے کی ممانعت نہیں کی گئی تو پھر دورانِ قراء تِ امام مقتدی کا سورت فاتحہ پڑھنا کیوں ممنوع ہو گیا؟ اس سلسلے میں جو جواب مانعینِ قراء ت دیں گے،وہی جواب قائلینِ وجوب کا بھی ہو سکتا ہے،اور قراء تِ فاتحہ کا وجوب پھر اپنی جگہ رہے گا۔[2] 4۔ فریقِ ثانی کے یہاں ایک چوتھی چیز بھی اس آیت کے حکم سے مستثنیٰ ہے اور اس کے بغیر چارہ بھی نہیں،یعنی جب امام قراء ت شروع کر چکا ہو اور کوئی شخص آکر جماعت سے ملے تو ثنا و استفتاح،یعنی((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ)) سے بھی قبل دورانِ قراء ت ہی وہ لا محالہ تکبیرِ تحریمہ،یعنی اللہ اکبر کہہ کر نماز میں شامل ہو گا،اگر اس آیت میں عموم ہے اور کسی چیز کا استثنا نہیں تو پھر یہ تکبیر کہنا بھی استماع و انصات کے خلاف ہونا چاہیے،لیکن اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
Flag Counter