Maktaba Wahhabi

97 - 292
(إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا) (الدهر:3) ’’بلاشبہ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے خواہ نا شکرا۔‘‘ اسی مفہوم کی قرآن مجید میں کئی آیات ہیں۔ ’’شاکر‘‘ اسے کہتے ہیں جو اللہ کی نعمت ایمان پر ڈٹا رہا اور اس کے پاؤں میں فتنوں کے طوفان اور آندھیوں کی وجہ سے لغزش نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے شکر کرنے والوں سے زائد انعام دینے کا وعدہ فرمایا اور زائد کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔فرمایا: (ۗ وَسَيَجْزِي اللّٰہُ الشَّاكِرِينَ) (آل عمران:144) ’’اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کے دشمن ابلیس نے شکر کے مقام کو پہچان لیا تو اس بدبخت نے لوگوں کو اس سے روکنے کا ہدف بنایا۔ (ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ) (الاعراف:17) ’’پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں سے اور ان کی بائیں سے آؤں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کائنات ارض میں پہلا رسول بھیجا اس کی صفت شکر کرنے والا بیان فرمائی، فرمایا: (ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا) (الاسراء:3) ’’بے شک وہ بہت شکر گزار بندہ تھا۔‘‘ نوح علیہ السلام کو آدم ثانی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب تمام مخلوق کو غرق کر دیا تو تمام لوگ انھی کی اولاد میں سے تھے ان کی صفت ’’شکور‘‘ اس لیے بیان کی کہ لوگوں کو بتایا کہ تمھارا باپ شکر کرنے والا تھا تم بھی شکر کرنے والے بنو۔
Flag Counter