Maktaba Wahhabi

111 - 292
جائے کہ دونوں میں سے جو واجب اور مندوب میں زیادہ درستگی سے عمل کرنے والا ہے وہ افضل ہے، کیونکہ فضیلت ان دونوں (صبر و شکر) کے تابع ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے: ’’بندے کو میرے قریب کرنے والی عبادت فرض عبادت پر ہمیشگی سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور نقل کے ذریعے سے بندہ میرے قریب آتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘ جو واجبات کو اور نوافل کو زیادہ درستگی سے ادا کرنے والا ہو وہ زیادہ افضل ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کے غریب لوگ 500 سال پہلے جنت میں داخل ہونگے۔‘‘ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ غریبوں کی فضیلت زیادہ ہے۔ تو ہم جواب دیں گے کہ ان کا پہلے داخل ہونا ان کے بلند مقام پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ غنی اور انصاف کرنے والا بادشاہ بعد میں داخل ہوگا مگر داخل ہونے کے بعد اس کا درجہ اور مقام اعلیٰ ہوگا۔ اگر کوئی اس حدیث سے استدلال کرے کہ جب فقراء نے شکوہ کیا کہ مال دار لوگ صدقہ خیرات کرتے ہیں اور وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ہر نماز کے بعد سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر کہو گے تو تمھارے برابر کسی کا عمل نہیں ہو گا سوائے اس شخص کے جو اس جیسا عمل کرے۔ جب مال داروں نے یہ سنا تو انھوں نے بھی عمل شروع کر دیا تو غریب لوگ پھر شکوہ لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جسے چاہتا ہے فضیلت عطا فرماتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال دار کی فضیلت زیادہ ہے۔ مذکورہ حدیث تو ہمارے مؤقف کی تائیدکر رہی ہے کہ دونوں میں سے افضل وہ ہے جس کے نوافل زیادہ ہوں گے جب امیر اور غریب عمل فرض میں برابر ہو گئے تو نوافل کی وجہ سے ایک دوسرے کو فضیلت دی گئی، یعنی غلام آزاد کرنا اور صدقہ وغیرہ کرنا۔ بعض نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خزانوں کی چابیاں دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رد کر دیا اور فرمایا: ’’ایک دن بھوکا رہیں گے اور دوسرے دن سیر ہو کر کھائیں گے۔‘‘ یا دیگر اس طرح کی احادیث سے کہ جس چیز کا
Flag Counter