وَصُوْرَۃُ الْمَسْأَلَۃِ مِنْ صُوَرِ الْمُنَاسَخَۃِ الَّتِیْ ہِیَ مِنْ أَہَمِّ مَسَائِلِ الْمِیْرَاثِ ، وَلاَ أَعْلَمُ فِیْہَا خِلاَفًا بَیْنَ أَہْلِ الْعِلْمِ الْمُتَقَدِّمِیْنَ مِنْہُمْ ، وَلاَ الْمُتَأَخِّرِیْنَ ۔ واللّٰه أعلم ۶/۲/۱۴۱۹ ھ
[س: احمد اور محمد دو بھائی ہیں ان دونوں نے مشترک مال سے زمین خریدی کچھ زمین آباد ہے اور کچھ بے آباد ہے دونوں بھائیوں نے قابل زراعت زمین آپس میں تقسیم کر لی برابر برابر ۔ اور بے آباد زمین بغیر تقسیم کے چھوڑ دی تین پشتوں تک ان دونوں کی اولادوں میں تقسیم کا یہی سلسلہ جاری رہا اب ان دونوں کی اولاد بے آباد زمین کو تقسیم کرنا چاہتی ہے لیکن انہوں نے کیفیت تقسیم میں اختلاف کیا ہے محمد کی اولاد (جو کہ تعداد میں زیادہ ہے احمد کی اولاد سے) کا کہنا ہے کہ ہم موجودہ زندہ افراد پر تقسیم کریں گے لیکن احمد کی اولاد کا کہنا ہے ہم دونوں خریداروں (احمد ، محمد) پر تقسیم کریں گے اور ان کی اولادیں آپس میں تقسیم کریں گی جس طرح انہوں نے آباد زمین تقسیم کی ہے پس ہمیں فتویٰ دو اور تمہارا اجر اللہ پر ہے ۔
ج : حمد وصلاۃ کے بعد ! بے شک وہ زمین جو قابل زراعت نہ تھی اس معاملہ میں قابل زراعت زمین کا حکم رکھتی ہے پس بے شک احمد اور محمد دونوں نے ان دونوں زمینوں کو خریدا تھا اور وہ دونوں اپنی زندگی میں ان دونوں زمینوں کے مالک تھے اور ان کے مرنے کے بعد وہ دونوں زمینیں ان دونوں کے وارثوں کی ہو گئیں اور اسی طرح نیچے کی اولاد میں ۔
اور یہ مسئلہ مناسخۃ کے مسائل سے ہے اور جو علم میراث کے اہم مسائل سے ہے اور اس مسئلہ میں متقدمین اور متاخرین علماء میں کوئی اختلاف میں نہیں جانتا ۔ واللہ اعلم]
س: وراثت : ۲۵ ایکڑ
میت مرد ، دو بیٹے ، دو بیٹیاں ، بیوی۔ بھائی میت کی وراثت کی تقسیم سے قبل ہی ایک بیٹا فوت ہو گیا ۔ ابھی وراثت تقسیم نہ ہوئی ۔ دوسرا بیٹا بھی فوت ہو گیا ۔
ج: شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی لاہور ۔موجودہ صور ت میں یکے بعد دیگرے فوت ہونے والے لڑکوں کو کالعدم قرار دے کر موجودہ کا مسئلہ بنا لیا جائے ۔ بایں صورت لڑکیوں کے لیے دو تہائی اور بیوی کو آٹھواں حصہ ملتا ہے باقی کا حقدار بھائی ہے ۔ بصورت نقشہ تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
|