Maktaba Wahhabi

355 - 592
س: سود قرآن کریم کی آخری آیتیں ہیں جن کے نازل ہونے کے کچھ ہی دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق وضاحت نہ فرمائی یا یہ سمجھئے کہ وضاحت کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ دین نبوی مکمل ہو چکا ہے حدیث شریف میں اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ سونے کے بدلے سونا چاندی کے بدلے چاندی گندم کے بدلے گندم جو کے بدلے جو نمک کے بدلے نمک کھجور کے بدلے کھجور کمی بیشی کے ساتھ لینا دینا جائز نہیں بلکہ سود ہے تو رہا حال مویشیوں کا اس میں اجازت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کسی کو ایک اونٹ دیا اور کچھ عرصہ کے بعد اس کے بدلے ۲۰ چھوٹے اونٹ لیے [1] کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چند اجناس ہی سود ہیں باقی سب چیزیں مستثنیٰ ہیں تو کیا ہمارے ملک کا نظام اجناس بینک کاری جس کا تعلق ملکی معیشت پر ہے روپے کے بدلے مدت کے بعد زیادہ لیا جاتا ہے اس کو اسلامی کہیں گے یا سودی کیونکہ صرف سود چھ مذکورہ چیزوں میں ہے ؟ ڈاکٹر منظور احمد ج: آپ کی ساری تحریر میں اصل سوال موجودہ بینکاری نظام کے متعلق دریافت کرنا ہے آیا یہ سود ہے یا نہیں ؟ تو جواب بتوفیق اللہ تعالیٰ مندرجہ ذیل ہے۔ موجودہ رائج بینکاری نظام سراسر ربوی سودی نظام ہے جو حرام ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰو﴾ [اللہ نے تجارت کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام] [2] نیز فرمایا :﴿وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُؤُسُ اَمْوَالِکُمْ لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ[3] [اور اگر باز آؤ تو اصل مال تم کو مل جائیں گے نہ ظلم کرو نہ تم پر ظلم ہو گا] اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ۲۶/۶/۱۴۱۴ ھ س: مَا الْفَرْقُ بَیْنَ رِبَا الْفَضْلِ وَبَیْنَ حُسْنِ الْقَضَائِ وَہٰذَا الْبَابُ مَوْجُوْدٌ فِیْ صَحِیْحِ الْبُخَارِی وَہَلْ یُشْتَرَطُ اَنْ یَکُوْنَ طَلَبُ الْفَضْل مَشْرُوْطاً عِنْدَ الْمُعَامَلَۃِ ؟[سودی اضافہ اور اچھی ادائیگی میں کیا فرق ہے اور یہ باب صحیح بخاری میں ہے اور کیا معاملہ کے وقت اضافہ کے مطالبہ کا شرط ہونا ضروری ہے ؟]عبدالرحمن ضیاء لاہور ج: فَاعْلَمْ أَنَّ الْفَرْقَ بَیْنَ رِبَا الْفَضْلِ وَحُسْنِ الْقَضَائِ أَنَّ رِبَا الْفَضْلِ لاَ یَکُوْنُ إِلاَّ رِبًا ، وَحُسْنَ الْقَضَائِ قَدْ یَکُوْنُ رِبًا ، وَقَدْ لاَ یَکُوْنُ رِبًا ، وَإِنَّمَا ہٰذَا إِذَا لَمْ یُشْتَرَطْ فِیْ حُسْنِ الْقَضَائِ أَنْ یَکُوْنَ غَیْرَ رِبًا ، وَإِنِ اشْتُرِطَ فَالْفَرْقُ أَنَّ رِبَا الْفَضْلِ رِبًا ، وَحُسْنَ الْقَضَائِ لَیْسَ بِرِبًا ۔ أَمَّا سُؤَالُکَ : ہَلْ یُشْتَرَطُ أَنْ یَکُوْنَ طَلَبُ الْفَضْلِ مَشْرُوْطًا عِنْدَ الْمُعَامَلَۃِ ؟ فَجَوَابُہٗ أَنَّہُ لاَ یُشْتَرَطُ ۔ واﷲ اعلم ۹/۶/۱۴۱۶ ھ
Flag Counter