کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں ۔ پھر صورت مسؤلہ میں نکاح اذن ولی کے بغیر ہے اور اذن ولی کے بغیر نکاح درست نہیں قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں لوگ اذن ولی کے بغیر نکاح کر لیا کرتے تھے اسلام نے اسلامی نکاح کے علاوہ جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے صحیح بخاری میں ہے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :﴿فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صلی للّٰهُ علیہ وسلم بِالْحَقِّ ہَدَمَ نِکَاحَ الْجَاہِلِیَّۃِ کُلَّہُ إِلاَّ نِکَاحَ النَّاسِ الْیَوْمَ﴾ [پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا ساتھ حق کے تو آپ نے جاہلیت کے تمام نکاح ختم کر دئیے مگر وہ نکاح جو آج لوگ کرتے ہیں] اور ’’نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ‘‘ کی وضاحت اسی حدیث میں پہلے آ چکی ہے چنانچہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں :﴿فَنِکَاحٌ مِنْہَا نِکَاحُ النَّاسِ الْیَوْمَ یَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ وَلِیَّتَہُ أَوِ ابْنَتَہُ ، فَیُصْدِقُہَا ، ثُمَّ یَنْکِحُہَا﴾ [1] [پس ان نکاحوں میں سے ایک نکاح وہ ہے جو آج لوگ کرتے ہیں کہ آدمی دوسرے آدمی کو پیغام دیتا اس لڑکی کے متعلق جو اسکی سرپرستی میں ہوتی یا اس کی بیٹی کے متعلق پس وہ اس لڑکی کا حق مہر مقرر کرتا پھر اس سے نکاح کرتا] عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں ۔ [2] ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے ۔ ان شاء اللّٰه الرحمان ۲۳/۲/۱۴۲۰ ھ س: تفسیر مظہری صفحہ ۴۰۱ میں ہے اگر کوئی عورت اپنا نفس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دے تو یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے آگے لکھا ہے کہ (یہ مسئلہ) ’’وَّہَبَتْ نَفْسَہَا‘‘ کا معنی ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو کسی مرد کے نکاح میں بغیر مہر کے |