رمضان کی قضاء کے روزے پورے کر لے ۔
مرضعہ اور حاملہ اگر روزے نہ رکھ سکتی ہوں تو مریض کے حکم میں ہیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے :﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾ [1]اور﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہُ﴾ الخ روزہ رکھنے کی طاقت رکھنے والوں کے بارے میں ہے بعد میں منسوخ کر دی گئی﴿فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمْ﴾ الخ ۲۱/۸/۱۴۱۸ ھ
س: عرض یہ ہے کہ آدمی سابقہ رمضان میں بیمار ہوا ہے اور ابھی تک اسی طرح بیمار ہے ۔ اس بندے کے پچھلے رمضان کے روزے بھی رہتے ہیں ۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان روزوں کا کیا کرے ۔ اب بھی وہ خود روزے نہیں رکھ سکتا ۔ اب وہ کسی کو روزے رکھائے یا ایک ہی مرتبہ تیس آدمیوں کو کھانا کھلائے یا پھر وہ تیس آدمیوں کا کھانا پکا کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں تقسیم کر دے ۔
ظاہر عزیز بن محمد اسلم جامعہ عمر بن الخطاب اہل حدیث جھبراں
ج: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا أَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ﴾[2] [اور جو کوئی ہو بیمار یا اوپر سفر کے پس گنتی ہے دنوں اور سے] اس آیت کریمہ کی رو سے مریض مرض سے صحت یابی کے دنوں میں روزے رکھے خواہ ایک رمضان کے ہوں یا زیادہ رمضانوں کے اور اگر مریض مرض سے صحت یاب نہیں ہوتا مرض میں فوت ہو جاتا ہے تو جتنے رمضانوں کے روزے وہ نہیں رکھ سکا اب اس کے اولیاء وہ روزے رکھیں صحیح بخاری میں ہے :﴿مَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ﴾ [3] [جو فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اور مندرجہ بالا آیت کریمہ اپنے مفہوم ومنطوق میں بالکل واضح ہیں اگر مریض بغرض اجر وثواب تطوع مساکین کو کھانا کھلانا چاہتا ہے تو بڑی خوشی سے کھلائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللّٰہ شَاکِرٌ عَلِیْم﴾[4] اور جو کوئی نفل طور پر زیادہ نیکی کرے تو بے شک اللہ تعالیٰ قدردان جاننے والا ہے ۲/۷/۱۴۱۵ ھ
٭٭٭٭
|