ذکر کو بلند آواز کے ساتھ کہنے کو معمول بنانا میری نظر سے کہیں نہیں گذرا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی کسی وقت امام کے پیچھے یہ ذکر بلند آواز کے ساتھ کہہ لے تو شریعت میں گنجائش ہے گناہ گار نہیں ہو گا رہا اس ذکر کے بآواز بلند کرنے کو عمل مستمر قرار دینا تو اسکی دلیل درکار ہے ؟ ۲۹/۱۰/۱۴۱۹ ھ س: سید بدیع الدین صاحب راشدی یا دیگر علمائے اہل حدیث جو رکوع کے بعد پھر ہاتھ باندھتے ہیں کیا صحیح طریقہ ہے کوئی حدیث ایسی ملتی ہے یا نہیں ؟ محمد صفدر عثمانی کوٹ حسین1/7/1986 ج: اس موضوع پر شیخ بدیع الدین صاحب راشدی ۔حفظہ اللہ تعالیٰ۔ نے کوئی دس گیارہ رسالے تصنیف فرمائے ہیں ان میں سے کسی کا مطالعہ فرما لیں ان کے ایک رسالہ کے آغاز میں شیخ عبداللہ ناصر حفظہ اللہ کا مقدمہ بھی ہے اگر اس کا مطالعہ کریں توزیادہ مفید ہے پھر اس پر شیخ ابن باز حفظہ اللہ تعالیٰ کا بھی ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے اسکا بھی مطالعہ فرما لیں ۔ بہرحال ہاتھ باندھنے والے نسائی شریف کی حدیث کے عموم سے استدلال کرتے ہیں جیسے یہ قبل الرکوع وضع الیدین کو متناول ہے ویسے ہی بعد الرکوع وضع الیدین کو بھی شامل ہے وہ لفظ یہ ہیں إِذَا قَامَ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی [جب وہ نماز میں کھڑے ہوتے اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھتے] تحقیق کے لیے حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی ۔رحمہ اللہ تعالیٰ۔ کا رسالہ إرسال الیدین اور پیر محب اللہ شاہ صاحب راشدی حفظہ اللہ تعالیٰ کے اس موضوع پر رسالے مطالعہ میں رکھیں ۔ ۱/۱۱/۱۴۰۹ ھ س: احادیث کی روشنی میں رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت وہیت ۔ نیز مسند امام احمدؒ ج۴ میں حضرۃ وائل بن حجر کی روایت کی سند کی وضاحت فرمائیں ؟حدیث :﴿حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہ ِحَدَّثَنِیْ اَبِیْ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الْوَلِیْدِ حَدَّثَنِیْ سُفْیَانُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیْنَ کَبَّرَ رَفَعَ یَدَیْہِ حِذَآئَ أُذُنَیْہِ ثُمَّ حِیْنَ رَکَعَ ثُمَّ حِیْنَ قَالَ سَمِعَ اللّٰہ ُلِمَنْ حَمِدَہٗ رَفَعَ یَدَیْہِ وَرَأَیْتُہُ مُمْسِکًا یَمِیْنَہُ عَلٰی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ فَلَمَّا جَلَسَ … إلٰی آخر الحدیث﴾[1] افتخار الدین آصف ج: آپ نے جس حدیث کی سند کے متعلق دریافت فرمایا ہے اس کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہیں جن کے بعض شاگرد مثلاً عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ تو جملہ ’’وَرَأَیْتُہُ مُمْسِکًا یَمِیْنَہٗ عَلَی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ‘‘ذکر نہیں کرتے [2]اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے (کیونکہ سفیان ثوری کے شاگرد عبداللہ بن ولید ثقہ ہیں اور وہ یہ جملہ بیان کرتے ہیں اور قاعدہ ہے ۔ ’’ زِیَادَۃُ الثِّقَۃِ مَقْبُوْلَۃٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِیَۃٌ لِمَا ہُوَ اَوْثَقُ‘‘ دیکھیں سفیان ثوری کے |