Maktaba Wahhabi

234 - 236
’’امام محمد در(مبسوط) بر مقتدی فاتحہ راتجویز کردہ چنانچہ خود دیدہ ام۔‘‘[1] ’’امام محمد نے(مبسوط) میں مقتدی کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا تجویز کیا ہے،جیسا کہ ان کی اس کتاب میں خود میں نے دیکھا ہے۔‘‘ 2۔ امام محمد کے اس قول کے شاذ نہ ہونے کا پتا اس امرِ دوم سے بھی چلتا ہے کہ مولانا ظفر احمد عثمانی نے تکمیل البرہان کے جواب میں جو مضمون ماہنامہ’’فاران‘‘کراچی میں شائع کروایا تھا،اسی کی ماہ دسمبر 1960ء کے پرچے میں شائع ہونے والی قسط میں ایسی ہی بات کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ہدایہ جو فقہ حنفی کی مشہور کتاب اور داخلِ درس ہے،اس میں یہ قول مذکور ہے کہ امام محمد نے احتیاطاً سری نمازوں میں قراء تِ فاتحہ کو مستحسن قرار دیا ہے۔ہدایہ سے زیادہ کون سی کتاب فقہ حنفی میں مشہور ہو گی۔ پھر ملا جیون اور مولانا عبد الحی رحمہما اللہ کی کتابوں میں امام محمد کے اس قول کے صراحت موجود ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے اور علامہ انور شاہ کشمیری نے’’العرف الشذي‘‘(ص:۱۴۷) میں لکھا ہے،اور’’معارف السنن‘‘(۳؍۱۸۸) میں علامہ بنوری نے بھی ان سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ’’رِوَایَۃُ الْاِسْتِحْسَانِ فِيْ السِّرِّیَّۃِ لَا بُدَّ أَنْ تَکُوْنَ ثَابِتَۃً فَاِنَّ صَاحِبَ الْہِدَایَۃِ ثَبْتٌ فِي النَّقْلِ مُتْقِنٌ لِلْمَذْہَبِ‘‘[2] ’’سری نمازوں میں استحساناً قراء تِ فاتحہ کی روایت لا محالہ صحیح ہے،کیوں کہ صاحبِ ہدایہ جنھوں نے اسے نقل کیا ہے اور وہ نقل میں پختہ اور مذہب
Flag Counter