Maktaba Wahhabi

233 - 236
تصانیف میں ذکر کیا ہے اور جن احادیث کی وجہ سے امام صاحب اور ان کے شاگرد نے استحسان کا قول اختیار کیا تھا،انھیں احادیث کے پیشِ نظر یہی دو ایک نہیں درجنوں علما و فقہائے احناف نے بھی سری میں بالعموم اور جہری کے سکتات میں قراء تِ فاتحہ کو مستحسن قرار دیا ہے۔اب یہاں ان کے اسمائے گرامی دوبارہ ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں،کیوں کہ ہم سابقہ صفحات میں ان کے اقوال کی نصوص اور ترجمہ بھی ذکر کر چکے ہیں۔ امام محمد کے قول کے سلسلے میں دیگر کتب سے قطع نظر صرف ہدایہ کا حوالہ بھی کافی ہونا چاہیے تھا،کیوں کہ ہدایہ فقہ حنفی کی معتبر ترین کتاب شمار ہوتی ہے اور اس کے فقہ کی پہلی تصانیف کی ناسخ قرار دیتے ہوئے اسے’’اَلْہِدَایَۃُ کَالْقُرْآنِ‘‘کا درجہ دیا جاتا ہے،لیکن بعض اہلِ علم نے امام محمد کے اس قول کو جب اپنے نظریات کے خلاف پایا تو ہدایہ ہی میں مذکور اس قول کو شاذ قرار دے دیا یا اسے مرجوح کہہ دیا،جیسا کہ فتح القدیر شرح ہدایہ میں امام ابن ہمام نے کیا اور پھر ان کی دیکھا دیکھی بعد والے بھی کتنے ہی مولفین یہی بات لکھتے گئے کہ ہدایہ میں مذکور امام محمد کا یہ قول ان کی اپنی تصانیف کتاب الحجہ(۱؍۱۱۶) اور موطا(ص:۹۴) و غیرہ میں مذکورہ اقوال کے خلاف ہونے کی وجہ سے شاذ ہے اور صاحبِ ہدایہ سے نقل میں تسامح ہوا ہے۔[1] حالانکہ نقل میں تسامح کی بات نہیں،بلکہ نظریے میں اختلاف ہونے کی وجہ سے ایسا کہا گیا ہے،ورنہ امام محمد رحمہ اللہ کی کتب میں یہی قول تھا،جسے صاحبِ ہدایہ اور دیگر علمائے احناف نے نقل اور قبول کیا ہے اور اس بات کی تائید کئی امور سے ہوتی ہے: 1۔ مجاہدینِ بر صغیر کی مشہور شخصیت سید احمد شہید رحمہ اللہ کے فاضل خلیفہ اور شہید کے دستِ راست اور ناموسِ ملت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter