Maktaba Wahhabi

198 - 236
’’اُتُّہِمَ فِیْہ مَأْمُونُ بْنُ أَحْمَد أَحَدُ الکَذَّابِیْنَ‘‘[1] ’’اس کی سند کا ایک راوی مامون بن احمد جھوٹوں میں سے ایک ہے،وہ متہم ہے۔‘‘ اس روایت کا موضوع و من گھڑت ہونا اس بات سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ خود حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اپنا فتویٰ یہ رہا ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی چاہیے،جیسا کہ سنن کبریٰ اور’’کتاب القراءۃ‘‘بیہقی میں ہے: ’’کَانَ یَأْمُرُنَا بِ القراءة خَلْفَ الْإِمَامِ۔قَالَ ثَابِتٌ:وَکُنْتُ أَقُوْمُ إِلیٰ جَانِبِ أَنَسٍ رضی اللّٰه عنہ فَیَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ مِنَ الْمُفَصَّلِ،وَیُسْمِعُنَا قَرَائَ تَہٗ لَنَا،فَخُذْ عَنْہٗ‘‘[2] ’’وہ ہمیں امام کے پیچھے قراء ت کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ثابت رحمہ اللہ کہتے ہیں:میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پہلومیں نماز پڑھتا،وہ سورت فاتحہ پڑھتے اور مفصل سورتوں میں سے کوئی سورت بھی پڑھتے اور اپنی قراء ت ہمیں بھی سنا دیتے،ان سے یہ مسئلہ سیکھیے۔‘‘ یہی حال حضرت سعد اور عمر رضی اللہ عنہما سے مروی آثار کا بھی ہے۔[3] گویا راوی کے اپنے عمل و فتوے کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی یہ روایت ناقابلِ استدلال و حجت ہے،جیسا کہ خود مانعینِ قراء ت کا اپنا بنایا ہوا اصول ہے۔ غرص کہ مامون بن احمد کی بیا ن کردہ یہ روایت موضوع و من گھڑت ہے،لہٰذا
Flag Counter