روایت کے علاوہ وہ روایت بھی لکھی گئی ہے جس میں یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کرتا ہے:
’’یَکُوْنُ فِيْ اُمَّتِيْ رَجُلٌ یُقَالُ لَہٗ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِیْسَ أَضَرَّ عَلَی اُمَّتِيْ مِنْ إِبْلِیْسَ وَیَکُوْنُ فِيْ اُمَّتِيْ رَجُلٌ یُّقَالُ لَہٗ أَبُوْ حَنِیْفَۃ،ہُوَ سِرَاجُ اُمَّتِيْ‘‘
’’میری امت میں ایک آدمی محمد بن ادریس(امام شافعی رحمہ اللہ) ہو گا،وہ میری امت کے لیے ابلیس سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو گا،(والعیاذ باللّٰہ) اور میری امت میں ایک آدمی ابوحنیفہ(امام صاحب رحمہ اللہ) ہو گا،وہ میری امت کا روشن چراغ ہے۔‘‘
اس روایت کے بارے میں امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’مَوْضُوع،لَعَنَ اللّٰہُ وَاضِعَہ،وَہَذِہِ اللَّعْنَۃُ لَا تَفُوْتُ أَحَدَ الرَّجُلَیْنِ وَہُمَا مَامُوْنٌ وَالْجُوْئِبَارِي،وَکِلَاہُمَا لاَ دِیْن لَہٗ وَلَا خَیْرَ فِیْہ،کَانَا یَضَعَانِ الْحَدِیْثَ‘‘[1]
’’یہ من گھڑت ہے،اللہ تعالی اس کے گھڑنے والے پر لعنت فرمائے اور اس لعنت کا مستحق ان دو میں سے ہر ایک ہے:’’مامون ہو یا جوئباری‘‘اور یہ دونوں ہی بے دین تھے اور مادۂ خیر سے قطعاً عاری۔یہ دونوں احادیث گھڑا کرتے تھے۔‘‘
’’الدرایہ في تخریج أحادیث الہدایۃ‘‘(ص:۹۵) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس راوی کے بارے میں لکھا ہے:
|