Maktaba Wahhabi

178 - 236
صرف سری نمازوں میں قراء تِ فاتحہ کی ملتی ہے،جو امام بیہقی نے روایت کی ہے،اس میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں آیا ہے: ’’إِنَّہُمَا کَانَا یَأْمُرَانِ بِ القراءة وَرَائَ الْإِمَامِ إِذَا لَمْ یَجْہَرْ‘[1] ’’وہ دونوں امام کے پیچھے قراء ت کرنے کا حکم فرمایا کرتے تھے جب کہ وہ جہراً نہ پڑھ رہا ہو۔‘‘ جب کہ یہ اثر سند کے اعتبار سے صحیح نہیں،کیوں کہ اس کا مدار عاصم بن بہدلہ پر ہے،اور یہ جو راوی سییٔ الحفظ تھا اور مقدمہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق ابو حاتم ابن علیہ اور عقیلی نے،میزان الاعتدال کی رو سے یحییٰ القطان،نسائی اور دارقطنی نے بھی اسے خراب حافظے والا قرار دیا ہے۔[2] اب ایسی روایت کی صحیح مسلم والی روایات اور دوسری سات روایات کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ جن کی رو سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سری و جہری تمام نمازوں میں مقتدیوں کو سورت فاتحہ پڑھنے کا فتویٰ دیتے رہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی قراء ت خلف الامام کا حکم دیا کرتی تھیں۔[3] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جو’’کتاب القراءة‘‘بیہقی میں مروی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَاَنْصِتُوْا) [4]’’جب امام قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘ وہ روایت بھی اس سند کے ایک راوی حسن بن علی بن شیب المعمری کی وجہ
Flag Counter