Maktaba Wahhabi

177 - 236
ان کے یہ شاگرد بھی طبقہ ثالثہ سے،یعنی اوساط تابعین رحمہم اللہ سے ہیں اور یہ شبہہ ہی نہیں ہو سکتا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انھیں فتویٰ پہلے دیا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے((وَإِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) والی حدیث بعد میں سنی ہو،اس طرح پہلے جواب کی حیثیت اور بھی مضبوط ہوجاتی ہے کہ یہاں جمع و تطبیق والے قاعدہ پر عمل کرنا چاہیے کہ((وَإِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) کو اس معنی پر محمول کیا جائے کہ سورت فاتحہ کے ماسوا کے وقت انصات و خاموشی اختیار کریں اور سورت فاتحہ پڑھ لیں،ساتھ ساتھ آہستگی سے یا سکتات میں اور اگر اس حدیث کا یہ معنی ہوتا کہ جب امام قراء ت کرے تو تم مطلق خاموش رہو تو پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آہستگی کے ساتھ سورت فاتحہ پڑھنے کا حکم نہ فرماتے اور پھر ان کایہ فتویٰ صرف صحیح مسلم میں ہونا ہی کافی تھا،جب کہ علاوہ ازیں وہ ’’جزء القراءة‘‘امام بخاری،صحیح ابی عوانہ،مسند حمیدی اور’’کتاب القراءة‘‘بیہقی کی سات مختلف روایات میں وارد ہوا ہے۔[1] ان ساتوں روایات میں وارد فتویٰ نصِ صریح ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جہری نماز میں بھی مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنے کا حکم فرماتے تھے اور ظاہر بات ہے کہ یہ فتویٰ بھی حدیث سے متاخر ہے،لہٰذا اصولِ فقہ حنفی کی رو سے یہ((وَ اِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) والی روایت منسوخ و ناقابلِ احتجاج بنتی ہے۔جب کہ یہ بھی محض الزامی جواب ہے،ورنہ یہ جملہ ہی شاذ و ضعیف ہے اور صحیح ہونے کی صورت میں جمع و تطبیق بھی ممکن ہے،لہٰذا اسے منسوخ قرار دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت
Flag Counter