Maktaba Wahhabi

142 - 236
جائز ہے جس میں تقییدِ مطلق اور تخصیصِ عام بھی شامل ہے۔ چنانچہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ’’غیث الغمام حاشیہ إمام الکلام‘‘میں لکھتے ہیں: ’’ابن حاجب نے مختصر الاصول میں اور عضد نے اس کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ خبرِ متواتر سے قرآن کے عموم کی تخصیص جائز ہے،جب کہ خبرِ واحد کے سلسلے میں بھی چاروں ائمہ کا کہنا ہے کہ اس سے بھی تخصیص جائز ہے۔‘‘[1] علمائے احناف قرآن میں وارد عموم کی تخصیص خبرِ واحد سے جائز قرار نہیں دیتے،البتہ اتنا تو ان کے یہاں بھی مسلّم ہے کہ جب عام کی تخصیص ثابت ہوجائے تو عام قطعی نہیں رہتا۔[2] امام رازی رحمہ اللہ نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے: ’’اس بات پر تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ خبرِ واحد سے عمومِ قرآن کی تخصیص جائز ہے اور آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ کا عموم مقتدی پر سکوت واجب قرار دیتا ہے،لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی‘‘اس عام حکم سے خاص ہے،لہٰذا لامحالہ اس عام آیت کو حدیث سے خاص کیا جائے گا۔یہی بات علامہ نیشا پوری اور علامہ شربینی کی’’السراج المنیر‘‘(۱؍۵۵۱) میں بھی کہی گئی ہے۔‘‘[3]
Flag Counter