Maktaba Wahhabi

90 - 131
سکتا ہے۔ چنانچہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے ریشم کو علی الاطلاق حرام قرار نہیں دیا۔ بلکہ اس کے استعمال کی بعض نوعیتوں کو اپنے زمانے کے لحاظ سے ممنوع ٹھہرایا ہے۔‘‘[اشراق:۷۵] ریشم حرام نہیں ؟ ریشم کے بارے میں غامدی صاحب کے بیان کا خلاصہ وہی ہے جس کا اظہار خود انھوں نے آخر میں کیا ہے کہ’’ یہ علی الاطلاق حرام نہیں،بلکہ اس کے استعمال کی بعض نوعیتوں کو اپنے زمانے کے لحاظ سے ممنوع ٹھہرایا گیا ہے‘‘ گویا وقتی طور پر آپ نے اپنے زمانے میں اسے ممنوع ٹھہرایا۔ اس لیے زمانہ حال میں اس کا استعمال حرام نہیں۔(معاذاﷲ) حالانکہ یہ بات بداہۃً غلط اور بے بنیاد ہے۔ اسی نوعیت کی بات پہلے بھی کہی گئی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وقال قوم یجوز لبسہ مطلقاً و حملوا الاحادیث الواردۃ فی النھی عن لبسہ علی من لبسہ خیلاء او علی التنزیہ قلت وھذا الثانی ساقط لثبوت الوعید علی لبسہ۔ [فتح الباری :۱۰/۲۸۵ ] ’’ایک قوم نے کہا ہے کہ ریشم پہننا مطلق طور پر جائز ہے۔ انھوں نے ریشم پہننے کی ممانعت کی احادیث کو اس پر محمول کیا ہے۔ جب ریشمی لباس تکبراً پہنا جائے یا یہ ممانعت تنزیہی ہے(تحریمی نہیں )۔ میں کہتا ہوں یہ دوسرا قول ریشم نہ پہننے کی وعید ثابت ہونے کی بنا پر ساقط الاعتبار ہے۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما عورتوں کے لیے بھی ریشم کو ناجائز قراردیتے تھے۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ان کے بعد اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ریشم مردوں کے لیے حرام اورعورتوں کے لیے جائز ہے۔ ریشم کی یہ حرمت صرف اس روایت میں ہی نہیں بلکہ متعدد احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ریشم کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور سونے کو بائیں ہاتھ میں لیا اور فرمایا: اِنَّ ھٰذَیْنِ حَرَامٌ عَلٰی ذُکُوْرِ اُمَّتِیْ۔ [ابوداؤد:۴/۸۹،نسائی]
Flag Counter