لہٰذا جب شراب اور جوئے کی محفلوں میں جوئے کا کھیل ’’نرد‘‘ ہی نہیں کھیلا جاتا تھا بلکہ طبل اور آلات موسیقی کا وجود بھی خارج از امکان نہیں تھا،تو ’’کوبہ‘‘ سے نرد مراد لینے ہی کو قرین قیاس قرار دینے میں کونسی معقولیت رہ جاتی ہے؟ علاوہ ازیں غامدی صاحب معجم طبرانی ا ء وسط رقم : ۷۳۸۸کی بناپر فرماتے ہیں : ایک روایت کے مطابق کوبہ کا ذکر دف اور مزامیر کے ساتھ آیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے چھ چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں۔ شراب،جوا،باجے،دف اور کوبہ۔ اس روایت میں کوبہ کا ذکر چونکہ دیگر آلات موسیقی کے ساتھ آیا ہے اس لیے یہاں اس سے نرد کی بجائے طبل مراد لینا زیادہ موزوں ہے۔[ حاشیہ اشراق :ص ۹۲] ہم یہاں اور کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ صرف یہ عرض ہے کہ جب یہ روایت ان کے ہاں مسلمہ ہے تو کوبہ یعنی طبل کی حرمت کا اس میں ذکر ہے۔ اس لیے طبل کی حرمت کا انکار اور ’’کوبہ ‘‘ سے صرف نرد مراد لینا بہرنوع بے بنیاد ہے۔ علاوہ ازیں کوبہ کا ذکر ’’قنین‘‘ کے ساتھ حضرت عبد رضی اللہ عنہ اﷲ بن عمرو کی روایت میں بھی آیا ہے۔اور اس سے مراد طنبورہ ہے۔ جوآلات موسیقی میں شمار ہوتا ہے۔ اس لیے کوبہ کے معنی یہاں طبل ہی مراد ہونا چاہیے۔ نرد نہیں۔ دَف پر طبل کا قیاس اسی طرح غامدی صاحب کا کہنا : ’’اگر دف کا جواز موجود ہے جو طبل ہی کی طرح بجانے کا آلہ موسیقی ہے تو طبل کو علی الاطلاق حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘[ اشراق :ص ۹۲] قطعاًدرست نہیں بلکہ ان کا یہ استدلال بھی ان کے علم و عقل پر نوحہ کناں ہے۔ اس لیے کہ اولاً تو دف کے بجانے کا ذکر عورتوں سے مخصوص ہے یا غیر مکلف بچیوں سے،مردوں سے نہیں۔ امام حلیمی رحمہ اللہ دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں : و ضرب الدف لا یحل الا للنساء لأنہ فی الاصل من |