Maktaba Wahhabi

63 - 131
ہیں،بدعت اور معصیت کے نہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مقدمہ اصول تفسیر میں اس مسئلہ کو متعدد مثالوں سے واضح کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ایسا اختلاف،اختلاف تضاد نہیں کہ پھر اس کی بنیاد پر کہا جائے کہ مفسرین نے کسی کی تخصیص نہیں کی۔ جیسا کہ غامدی صاحب فرما رہے ہیں : سوچ کی کجی لہوالحدیث کے لغوی معنی کے اعتبار سے اگر مفسرین نے ہر عافل کر دینے والی چیز مراد لی ہے تو کیا غنا اور موسیقی میں یہی عنصرموجود نہیں ؟ اور کیا کسی مفسر نے اس قول کو تفسیر سے خارج کیا ہے؟ یا موسیقی اور غنا پر محمول کرنے کی کسی نے تردید کی ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ تردید کیونکر کرتے جب کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حلفاً اس کو متعین کیا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی غنا مراد لیے ہیں۔بلکہ علامہ ابن منظور نے بھی فرمایا ہے جاء فی التفسیر ان لھو الحدیث ھنا الغنائکہ تفسیرمیں لہو الحدیث سے یہاں مراد غنا ہے۔ [ لسان العرب :۲۰/۱۲۶،۱۲۷]یعنی لغوی اعتبار سے اس کے معنی میں گو وسعت پائی جاتی ہے مگر تفسیر قرآن میں اس کا مفہوم غنا ہے۔مگر غامدی صاحب کے نزدیک اس کی تعیین درست نہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے جب قرآن پاک سے ہدایت پانے والوں اور اس کو سن کر مستفید ہونے والوں کا ذکر کیا تو اس کے بعد ان اشقیاء کا ذکر فرمایا جنھوں نے کلام الٰہی سے استفادہ کرنے کی بجائے مزامیر،غنا اور آلات ملاہی کے سننے پر لٹو ہو گئے جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ اس آیت سے غنا مراد ہے ان کے الفاظ ہیں : عطف بذکر حال الاشقیاء الذین اعرضوا عن الانتفاع بسماع کلام اللّٰہ واقبلوا علی استماع المزامیر والغناء بالألحان وآلات الطرب کما قال ابن مسعود۔الخ [ ابن کثیر :۳/۵۸۳] اورعلامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے آپ پڑھ آئے ہیں کہ سب سے بہتر تفسیر یہی ہے کہ
Flag Counter