استدلال کی جسارت نہ کرتے۔ ایک غور طلب مسئلہ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی پہلی روایت کے آخر میں ذکر ہوا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں عمر(رضی اللہ عنہ) کے آنے سے شیاطین جن و انس بھاگ کھڑے ہوئے۔ اسی طرح حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے آخر میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا: عمر (رضی اللہ عنہ) تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے۔ ان آخری الفاظ سے تو یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ دف بجانے کے عمل کو رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے شیطانی عمل قرار دیا ہے،جس سے اس عمل کی قباحت و شناعت واضح ہوتی ہے۔ مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں : ’’یہ محض تفنن طبع کا جملہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اﷲعنہ کی طبیعت کی سختی کو بیان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہوگا،اگر اس کے لفظی معنوں ہی کو حقیقی سمجھا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اﷲعنہا،سیدنا ابوبکررضی اﷲعنہ اور خود نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے گانا سننے کے عمل کو کیا معنی پہنائے جائیں گے؟ [اشراق: ص۳۴] حالانکہ یہ جملہ محض تفنن طبع کے طو رپر نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے ایک حقیقت کا اظہار فرمایا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ دونوں احادیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ذکر کی ہیں۔ ملاحظہ ہو ترمذی مع التحفہ [ج۴ ص۳۱۶۔ ۳۱۷] اس لیے یہ اور اسی موضوع کی دوسری احادیث کو حضرات محدثین تفنن طبع کا جملہ نہیں بلکہ اسے حقیقت پر محمول کرتے اور اسے حضرت عمررضی اﷲعنہ کے مناقب میں شمار کرتے ہیں۔ رہا وہ سوال جو غامدی صاحب نے ذکر کیا ہے تو اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر شارحین حدیث دے چکے ہیں :یہ کیوں ممکن نہیں کہ سماع اور دف کی محبت میں جب شیطان وہاں آیا،ادھر سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے تو انھیں دیکھ کر شیطان بھاگ گیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس لونڈی کا دف بجانا یا لونڈی کا اچھلنا کودنا حد حرمت تک نہ تھا،کیونکہ وہ معروف معنوں میں رقاصہ یا مغنیہ نہ |