Maktaba Wahhabi

49 - 131
فرمائیے اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت سے گانے بجانے کا یا رقص کے جواز کا پہلو نکلتا ہو تا تو وہ گانے،سرگھمانے والے کو شیطان کہہ کر گھر سے نکالنے کا حکم نہ دیتیں۔اس لیے اس روایت سے گانے اور رقص کا جواز بہر آئینہ درست نہیں۔ دوسری حدیث فن موسیقی کے ثبوت کے لیے جناب غامدی صاحب نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کسی غزوے سے لوٹے تو ایک سیاہ فام لونڈی آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی،اس نے کہا :یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اﷲ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلامتی سے واپس لایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم نے نذر مانی ہے تو بجالو،اس نے دف بجانا شروع کیا (اسی دوران میں ) ابوبکر رضی اﷲعنہ آئے اور وہ دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت عمررضی اﷲعنہ داخل ہوئے (انھیں دیکھ کر) اس نے دف کو اپنے نیچے چھپا لیا (یہ دیکھ کر) نبی صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا: عمر تم سے تو شیطان بھی ڈرتا ہے۔ [بیہقی:۱۰/۷۷] اس روایت میں ’’ جَارِیَۃٌ سَوْدَآئٌ‘‘ کے الفاظ ہیں جس کے معنی سیاہ فام لونڈی ہے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد قَیْنۃ (مغنیہ لونڈی) ہی ہے،مگر جب روایت میں اس کا کوئی اشارہ نہیں کہ وہ قَیْنۃ تھی تو خواہ مخواہ اسے پیشہ ور مغنیہ قرار دینا سینہ زوری ہے اور اپنے دل کو تسکین دینے کا ایک بہانہ ہے۔ لونڈی نے ایک غزوہ سے صحیح سالم لوٹنے پر یہ نذر مانی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر دف بجاؤں گی،آپ نے فرمایا کہ اگر تم نے نذر مانی ہے تواسے پورا کرو اور دف بجا لو۔ دف بجانا زیادہ سے زیادہ مباح ہے،یہ کوئی نیکی نہیں اور نذر کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : اِنَّمَا النَّذْرُ مَا ابتُغِیْ بِہٖ وَجْہُ اللّٰہِ۔[مسند احمد:۲/۱۸۳،۲۱۱] نذر اس عمل کے بارے میں ہے جس میں اﷲ کی رضا و خوشنودی ہو۔ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا سے مروی ہے کہ:
Flag Counter