لہٰذا حبشیوں کے اس ’’رقص‘‘ اور کھیل سے ماہر فن رقاص کا ثبوت کسی اعتبار سے بھی درست نہیں۔ یہ کھیل بالکل اسی نوعیت کا ہے جس کا مظاہرہ ہمارے ہاں بعض مقامات پر گتگا کھیلنے والے کرتے ہیں۔ جدید اسلحے کی ریل پیل سے پہلے یہی گتگا لڑائی اور اپنے دفاع میں ایک کامیاب ترین ہتھیار سمجھا جاتا تھا۔ جس کی باقاعدہ تربیت حاصل کی جاتی تھی۔ جس میں اچھلنا کودنا اور لاٹھی کے ذریعے مختلف دفاعی انداز اختیار کرنا باقاعدہ ایک فن کی حیثیت رکھتا تھا۔ جسے گتگا بازی کہا جاتا اور یہی حبشیوں کا وہ کھیل تھا جسے ’’زفن‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گتگا بازوں کو آج تک ان کے تمام تر کرتبوں کے باوصف ’’ماہر فن رقاص‘‘ نہیں سمجھا جاتا تو حبشیوں کے اس کھیل کو جسے زفن سے تعبیر کیا گیا ہے ماہر فن رقاص کیوں کر باور کر لیا جائے؟ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’’تزفن‘‘ کے معنی زیر بحث روایت میں ماہر فن رقاص یا رقاصہ نہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم ان ’’ماہرین فن‘‘ کے رقص سے لطف اندوز ہوتے رہے،سراسر غلط ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی اس حدیث سے ناچ گانے کے جوازپراستدلال اس لیے بھی درست نہیں کہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس کی مذمت ثابت ہے۔چنانچہ ام علقمہ فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ کی بھتیجیوں کا ختنہ کیا تو ان کا درد دالم دور کرنے کے لیے گانے کا انتظام کیا گیا۔ چنانچہ گانا گانے والے کو بلایا گیا۔اس نے گانا شروع کیا،اس کے سر کے بال بہت زیادہ تھے۔ وہ گاتا اور خوشی سے سرکو ہلاتا گھماتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو فرمایا:’’ اف شیطان اخرجوہ اخرجوہ فاخرجوہ‘‘اف !یہ تو شیطان ہے،اس کو نکالو،نکالو۔ توانھوں نے اس کو گھر سے نکال دیا۔یہ اثر السنن الکبریٰ للبیہقی [۱۰/۲۲۴]،الادب المفرد[رقم:۱۲۴۷]میں سند حسن سے منقول ہے۔ امام بیہقی نے اسے باب الرجل یغنی فیتخذ الغناء صناعۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو غنا کو بطور پیشہ اختیار کرتا ہے۔ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ گانے والا پیشہ ور تھا۔ اسکا گانا اور سرہلانا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ناگوار گزرا بلکہ فرمایا کہ یہ شیطان ہے اسے گھر سے نکالو۔ غور |