کرنا مقصد تھا کہ کتے اور جرس یا جلجل کے بارے میں جن تاویلات کا سہارا لیا گیا ان کی پوزیشن کیا ہے ؟ ایک اور غلط دعویٰ غامدی صاحب کی یہ جسارت بھی دیدنی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲعنہا کی روایت جو ابوداؤد [۴/۱۴۸]کے حوالے سے ہم پہلے نقل کر آئے ہیں۔ اس کے بارے میں اس اعتراف کے باوجود کہ اس روایت کو محدثین نے حسن قرار دیا ہے [اشراق: ص ۸۶]فرماتے ہیں کہ اصل واقعہ تو صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ہے۔ ’’چنانچہ مصنف عبدالرزاق میں یہی واقعہ نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کے جملے کے بغیر نقل ہوا ہے۔ ہشام بن عر وہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لونڈی آئی،اس کے پاؤں کی پازیب میں گھنگرو لگے ہوئے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس فرشتوں کو ہٹانے والی کو مجھ سے دور کردو۔ [عبدالرزاق: ۱۹۶۹۹،اشراق : ص ۸۷] حیرت ہے کہ جس روایت کے بارے میں وہ معترف ہیں کہ محدثین نے اسے حسن قرار دیا ہے،اس کے مقابلے میں ایک ایسی روایت سے اس کے مرفوع ہونے کی نفی کی جاتی ہے جو خود پایہ ثبوت سے ساقط ہے۔ کیونکہ مصنف عبدالرزاق [۱۰/۴۵۹]میں یہ روایت معمر سمعت رجلاً یحدث ہشام بن عروۃ قال دخلت جاریۃ علی عائشۃ کی سند سے مروی ہے۔ اولاً تو معمر رحمہ اللہ کاشیخ ’’رجل‘‘ مبہم ہے۔ وہ کون اور کیسا ہے ؟ اس کی توثیق کی ذمہ داری غامدی صاحب پر ہے۔ ثانیاً: ہشام بن عروہ اس سال پیدا ہوئے جس سال حضرت حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں شہید ہوئے۔ یعنی ۶۱ھ میں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: ولد سنۃ مقتل حسین یعنی سنۃ احدی وستین [تہذیب:۱۱/۵۱]جب کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ اس سے اڑھائی سال قبل رمضان سنہ ۵۸ ہجری میں انتقال فرما گئی تھیں،بلکہ خود ہشام رحمہ اللہ بن عروہ کا تو قول ہے کہ ۵۷ھ میں ان کا انتقال ہوا۔[تہذیب:۱۲/۴۳۶] اس لیے ہشام کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایسی ضعیف اور منقطع روایت کی بنا پر ایک |