Maktaba Wahhabi

70 - 131
وکذا قال ابن عباس و جابر و عکرمۃ و سعید بن جبیر و مجاہد و مکحول و عمرو بن شعیب وعلی بن بذیمۃ۔[ ابن کثیر :۳/۵۸۳] اب ان کے مقابلے میں جمہور تابعین کون سے ہیں جنھوں نے لہوالحدیث کو عام قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن قیم نے امام واحدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اکثر مفسرین اسی سے غنامراد لیتے ہیں [اغاثۃ اللہفان: ۱/۲۵۷]۔بلاشبہ امام ابن جریر رحمہ اللہ،علامہ آلوسی رحمہ اللہ وغیرہ متاخرین مفسرین نے اس سے عام مفہوم مراد لیا ہے اور یہ محض اس لیے کہ قرآن پاک کا عام حکم سبب خاص کے لیے مختص نہیں ہوتا وہ اپنے جمیع مشتملات کو شامل ہوتا ہے الا یہ کہ کسی نص سے اس کی تعیین و تخصیص ہوتی ہو اوریہاں تو جن مفسرین نے اسے عام قرار دیا ہے خود انھوں نے غنا ومزامیر کو اس میں شامل کیا ہے جیسا کہ حضرت مفتی رحمہ اللہ صاحب نے بھی وضاحت فرما دی ہے۔ غامدی صاحب کی فکر ی کجی ہماری ان گزارشات سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ’’لہو الحدیث‘‘ سے حقیقۃً غنا،موسیقی اور تمام آلات ملاہی مراد ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی سمجھا ہے اور یہی رائے اکثر مفسرین کی ہے جیساکہ علامہ واحدی رحمہ اللہ وغیرہ کے حوالے سے ہم نقل کر آئے ہیں اور اسی سے ہر وہ باطل چیز بھی مراد ہے جو انسان کو یاد الٰہی سے غافل کر دیتی ہے مگر غامدی صاحب فرماتے ہیں : ان الفاظ کی بنا پر قرآن مجید کے حوالے سے حرمت غنا کی تعیین ہرگز درست نہیں۔ قرآن مجید کا اپنا عرف بھی اس تعیین سے ابا کرتا ہے۔ لہو کا لفظ سورہ ء لقمان کے علاوہ دوسرے کئی مقامات پر نقل ہوا ہے۔ ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک جگہ پر بھی سیاق کلام غنا کی تخصیص کو قبول نہیں کرتا۔[اشراق :ص ۵۹] جناب من ! یہ تعیین کیوں درست نہیں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے سامنے قرآن نازل ہوا،
Flag Counter