Maktaba Wahhabi

69 - 131
ص :۵۹]حالانکہ حضرت مفتی صاحب نے صاف صاف لکھا ہے کہ: ’’آیت مذکورہ میں چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تو’’لہو الحدیث‘‘ کی تفسیر گانے بجانے سے کی ہے اور دوسرے حضرات نے اگرچہ تفسیر عام قرار دی ہے،ہر ایسے کھیل کو جو اﷲ سے غافل کر دے،لہوالحدیث فرمایا ہے۔ مگر ان کے نزدیک بھی گانا بجانا اس میں شامل ہے۔‘‘ [ معارف القرآن :۶/۲۵] یہی بات مسلسل ہم بھی عرض کر رہے ہیں کہ لہو الحدیث میں غنا اور موسیقی بہرحال شامل ہے۔ لہو الحدیث کا جو بھی مفہوم ہو،موسیقی اس سے قطعاً خارج نہیں۔ بلکہ اولیت اسی مفہوم کو حاصل ہے،کیونکہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین بار حلفاً یہی بات ارشاد فرمائی کہ اس سے مراد موسیقی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جمہور تابعین کرام نے بھی غنا ہی کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ حضرت مفتی صاحب مرحوم مزید رقم طراز ہیں : ’’ آیت مذکورہ میں لہو الحدیث کے معنی اور تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ حضر ت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ،ابن عباس و جابر رضی اﷲ عنہم کی ایک روایت میں اس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے،اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ اور عام مفسرین کے نزدیک لہو الحدیث عام ہے تمام ان چیزوں کے لیے جو انسان کو اﷲ کی عبادت اور یاد سے غفلت میں ڈالے،اس میں غنا مزامیر بھی داخل ہے اور بیہودہ قصے کہانیاں بھی۔[ معارف القرآن :۷/۲۱] حضرت مفتی رحمہ اللہ صاحب سے سہو ہوا کہ انھوں نے جمہور صحابہ و تابعین کے بارے میں لکھ دیا کہ ان کے نزدیک ’’لہوالحدیث‘‘ عام ہے۔ تفسیر طبری،ابن کثیر اور الدرالمنثور اٹھا کر دیکھ لیجیے کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی قابل اعتبار سند سے ’’لہوالحدیث‘‘ کا عام مفہوم ثابت نہیں۔ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ اس سے ’’ الغناء واشباھہ‘‘ مراد ہے او ر ایک قول میں اگر انھوں نے ’’ باطل الحدیث‘‘ فرما یاہے تو دوسری روایت میں ’’ باطل الحدیث ھو الغناء ونحوہ‘‘کے الفاظ ہیں۔ گویا باطل الحدیث میں بھی وہ اول وہلہ میں غنا ہی مراد لیتے ہیں۔ اور یشتری لہو الحدیث کے معنی شراء المغنیّۃ کرتے ہیں۔بالکل یہی معاملہ تابعین کرام کے اقوال کا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کرکے کہ ا س سے غنا مراد ہے صاف طور پر لکھا ہے کہ:
Flag Counter