Maktaba Wahhabi

111 - 131
کیا ہے اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے ان کو اغاثۃ اللہفان [ ج:۱۰ص ۲۷۸ تا ۲۸۳ ] میں نقل کیا ہے۔ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ روایت صحیح ہے۔ اور اسی بنا پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے الصحیحۃ [ رقم ۱۶۰۴ ] میں ذکر کیا ہے۔ ان روایات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔ عذاب الٰہی کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ آلات موسیقی اور گانے بجانے کا شغل عام ہو جائے گا۔ جناب غامدی صاحب نے ’’سازوں کا عام ہونا اور مصائب کا نزول ‘‘ کے عنوان سے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ترمذی کے حوالے سے ذکر کی ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ضعیف ہے۔ مگر یہاں دو باتیں قابل غور ہیں : غامدی صاحب کی بے خبری اولاً تو یہ کہ غامدی صاحب نے اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’اس روایت کو ترمذی نے غریب قرار دیا ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ضعیف ہے۔ المحلی میں اس کے راویوں کے بارے میں لکھتے ہیں :(اس روایت کے راویوں میں سے) لاحق بن حسین،ضرار بن علی اور حمصی مجہول ہیں اور فرج بن فضالہ متروک ہیں۔[ محلی :۹/۵۶،اشراق: ص ۱۰۳،۱۰۴ ] حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ترمذی کی سند میں لاحق بن حسین ہے،نہ ضرار بن علی اور نہ ہی حمصی جنھیں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ مجہول قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ترمذی کی سند حسب ذیل ہے: حدثنا صالح بن عبداللّٰہ نا الفرج بن فضالۃ أبوالفضالۃ الشامی عن یحیی بن سعید عن محمد بن عمر بن علی عن علی بن ابی طالب۔ خوردبین لگا کر دیکھیں اور بتلائیں کہ ترمذی کی سند میں وہ تینوں راوی کہاں ہیں ؟ جن کو نام بنام مجہول قرر دیا گیا ہے۔ دراصل علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی سند سے یہ روایت الفرج بن فضالہ کے واسطے سے نقل کی ہے،جس میں ان تینوں کا ذکر ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : حدثنا احمد بن عمر بن انس نا ابواحمد سھل بن محمد بن احمد بن
Flag Counter