سھل المروزی نا لاحق بن الحسین المقدسی قدم مرو نا ابوالمرجی ضرار بن علی بن عمیر القاضی الجیلانی نا احمد بن سعید بن عبداللّٰہ بن کثیر الحمصی نا فرج بن فضالۃ۔ الخ [ محلی :۹/۵۶ ] غامدی صاحب کی لیاقت دیکھیے کہ وہ روایت تو ترمذی سے نقل کرتے ہیں مگر جرح لاحق بن الحسین،ضرار اور احمد الحمصی پر نقل کرتے ہیں جو ترمذی کیا سنن اربعہ میں سے بھی کسی کتاب کے راوی نہیں۔ اور غالباً ایسا انھوں نے محض اس لیے کیا ہے کہ اپنے حواریوں کو مطمئن کیا جائے کہ اس کی سند مسلسل مجہول اور متروک راویوں پر مشتمل ہے۔ ورنہ جو راوی سر ے سے ترمذی کے راوی ہی نہیں انھیں ترمذی کی روایت ذکر کر کے مجہول قرار دینے کا کیا مقصد؟ اور یہ بات تو اپنی جگہ تفصیل طلب ہے کہ لاحق بن حسین مجہول نہیں بلکہ کذاب ہے اور فرج بن فضالہ متروک نہیں،ضعیف ہے۔ مگر ہم یہاں اس بحث کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ کیونکہ فرج بن فضالہ کے علاوہ محمد بن عمر بن علی کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔[تہذیب :۹/۳۶۱ ] اس لیے سنداً یہ روایت ارسال اور فرج بن فضالہ کی بناپر ضعیف ہے۔ ثانیاً: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں شراب،آلات موسیقی اور گانے والیوں کے عام ہونے پر مصائب کے نزول کا جو ذکر ہے اس کے متعدد شواہد موجود ہیں،جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی بنا پر اس حصہ کے بارے میں فرمایا: ھذا القدر منہ صحیح بلا ریب لھذہ الشواہد اس کا اس قدر حصہ اپنے شواہد کی بنا پر بلاریب صحیح ہے۔ [تحریم آلات الطرب:ص ۶۷ ] نیز دیکھیے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ [رقم :۹۰،۱۶۰۴ ] علامہ البانی رحمہ اللہ ترمذی کی مکمل روایت کو تو ضعیف قرار دیتے ہیں جیسا کہ ضعیف الترمذی کے حوالے سے غامدی صاحب نے نقل کیا ہے۔ [اشراق :ص ۱۰۴]مگر ترمذی کے اس حصہ کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیتے ہیں۔ مگر وہ غالباً ان کی اس وضاحت سے بے خبر ہیں اس لیے اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اب یہ بات تو ہر مسلمان کے دین وا یمان کی ہے کہ جن امور کے ارتکاب میں سزا کے طور پر خنزیر اور بندر بنادیا جائے اور زمین میں دھنسا دیا جائے۔ا ن امور کو حرام اور اﷲ تعالیٰ کی |