Maktaba Wahhabi

100 - 131
وغیرہ کی روایت ابن رحمہ اللہ ابی لیلیٰ کے ضعیف ہونے کی بنا پر لائق استدلال نہیں تو ترمذی کی سند میں ابن ابی لیلیٰ کی موجودگی کے باوجود ’’حسن‘‘ا ور ’’قابل اعتنا ‘‘کیوں ہے ؟ غامدی صاحب کا ایک اور گھپلا لہٰذا جب محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ،ترمذی اور بیہقی وغیرہ کی روایت میں مشترک ہے تواس کے باوجود ترمذی کی روایت کو قابل اعتناء قرار دینے کا سبب کیا ہے ؟ اس حوالے سے غامدی صاحب کی نکتہ افرینی ملاحظہ ہو کہ ترمذی کی روایت میں ہے کہ جب حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف نے عرض کیا کہ آپ ر و رہے ہیں،کیا آپ نے رونے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں،میں نے تو دو احمق،فاجر آوازوں سے منع کیا تھا۔ مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنے اورگریبان پھاڑنے کی آواز،اور دوسرے نوحہ گری کرتے ہوئے شیطان کی طرح چیخنے چلانے کی آواز۔‘‘ روایت کے اپنے اسی ترجمہ کی بنا پر فرماتے ہیں : ’’اس طریق میں غنایا لہو و لعب کا ذکر کسی پہلو سے موجود نہیں،یہ روایت اگر درست ہے تو ہمارے نزدیک اس کا یہی طریق قرین قیاس ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہاں نبی کریم نے آوازوں کے حسن و قبح کے بار ے میں کسی مجرد سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ بیٹے کی وفات کے موقع پر اپنے رونے کی وضاحت فرمائی کہ میں نے آنسو بہانے سے نہیں روکا۔ میں نے جسم پیٹنے اور چیخنے چلانے سے منع کیا ہے۔ روایت کو اس زاویے سے دیکھا جائے تواس سیاق و سباق میں گانے بجانے کا ذکر بالکل بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے۔‘‘[ اشراق: ص :۱۰۳] لیجیے جناب! یہ ہے وہ اصل نکتہ جس کی وجہ سے ترمذی کی روایت تو قابل اعتناء ہے مگر بیہقی وغیرہ کی روایت ضعیف ہے کیونکہ ’’سیاق و سباق میں گانے بجانے کا ذکر بالکل بعید از قیاس ہے‘‘ گویا ترمذی کی روایت ’’سیاق و سباق ‘‘ کے مطابق ہے۔ جب کہ بیہقی وغیرہ کی روایت ’’سیاق و سباق ‘‘سے بالکل بعید ہے۔ انا للّہ و انا الیہ راجعون۔ حالانکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے یہ روایت بیان کرتے ہوئے صاف طور پر لکھا ہے:
Flag Counter