و فی الحدیث کلام اکثر من ھٰذا۔ کہ حدیث میں اس سے زیادہ کلام ہے۔ گویا یہ حدیث کا ایک حصہ ہے،مکمل حدیث نہیں۔ اس وضاحت کے باوجود صرف اس حصہ کو تو قرین قیاس سمجھنا اور باقی کو بعید از قیاس قرار دینا دیانت و امانت کی کونسی معراج ہے ؟ شارح ترمذی محدث مبارک پوری رحمہ اللہ نے علامہ سیوطی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ: روایۃ الترمذی قد ذکر فیھا احد الصوتین فقط واختصر الآخر ویؤیدہ ان فی روایۃ البیھقی اِنِّیْ لَمْ اَنْہَ عَنِ الْبُکَآئِ اِنَّمَا نَھَیْتُ عَنْ صَوْتَیْنِ اَحْمَقَیْنِ فَاجِرَیْنِ صَوْتُ نَّغْمَۃٍ لَھْوٌ وَلَعْبٌ وَمَزَامِیْرُ شَیْطَانٍ وَصَوْتٌ عِنْدَ مُصِیْبَۃٍ خَمْشٌ وُجُوْہٍ وَشَقُّ جُیُوْبٍ وَرَنَّۃ۔الخ [تحفۃ الاحوذی :۲/۱۳۷] ’’ترمذی کی روایت میں صرف ایک آواز کا ذکر ہے۔ دوسری آواز کو مختصر کیا گیا ہے۔ اس کی تائید بیہقی کی روایت سے ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا،میں نے رونے سے منع نہیں کیا البتہ دواحمقانہ اور فاجرانہ آوازوں سے روکا ہے۔ ایک گانے کی آواز،لہو ولعب اورشیطانی باجے کی آواز،اور دوسری مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنے،گریبان چاک کرنے اور چیخنے چلانے کی آواز۔ بیہقی میں صرف ’’ رنۃ ‘‘ کا لفظ ہے جبکہ دوسرے مراجع میں رنۃ شیطان(یعنی شیطان کا چیخنا ہے)کے الفاظ ہیں۔ غور فرمائیے!ترمذی کے الفاظ ہیں صَوْتٌ عِنْدَ مُصِبْیَۃٍ خَمْشُ وُجُوْہٍ وَ شَقُّ جُیُوْبٍ وَ رَنَّۃُ شَیْطَانٍ جب کہ دیگر مراجع میں ہے صَوْتٌ عِنْدَ نَّغْمَۃٍ لَھْوٌ وَلَعْبٌ وَمَزَامِیْرُالشَّیْطَانِ وَصُوْتٌ عِنْدَ مُصِیْبَۃٍ خَمْشُ وُجُوْہٍ وَ شَقُّ جُیُوْبٍ وَرَنَّۃُ شَیْطَانٍ دونوں کے تقابل سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ترمذی میں مکمل روایت کا صرف آخری حصہ ہے۔ اور اسی طرف امام ترمذی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت فرما دی۔ اس کے بالکل برعکس غامدی صاحب کی ہوشیاری دیکھیے کہ وہ ترمذی کی روایت میں ہی دو آوازوں کا ذکر کرتے ہیں اور ترمذی کے الفاظ کا ترجمہ کرتے |