لہٰذاجب غامدی صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’جلجل‘‘ گھنگرو پیشہ ور مغنیات استعمال کرتی تھیں تو اس کے بعد ان کو آلات موسیقی میں شمار نہ کرنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے ؟ بلکہ پہلے فتح الباری [ج۲ ص۴۴۰،۴۴۱] کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ یہ جلجل دف کو لگا دی جاتی تھیں توایسی صورت میں دف بھی ’’المزھر‘‘ باجے میں شمار ہوتی تھی۔ اور کسے معلوم نہیں کہ جلجل کو ’’جرس صغیر‘‘ (چھوٹی گھنٹی) کہا جاتا ہے۔ اس لیے جرس اور جلجل کو آلات موسیقی سے خارج قرار دینا بہرنوع غلط ہے۔ ایک اور بہانہ دوسری بات جو ان روایات کے بارے میں کہی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے اسے اس لیے ناپسند فرمایا کہ جہاد کے دوران میں اس کی آواز سے آپ کے ساتھیوں اور قافلے کے چلنے کا پتا چل جاتا تھاجب کہ آپ پسند فرماتے تھے کہ دشمن ان کے بارے میں بے خبر رہیں،یہاں تک کہ آپ اچانک ان کے پاس پہنچ جائیں۔ [اشراق :ص ۸۲،۸۳] بلاشبہ بعض حضرات نے جرس کی کراہت کا یہ ایک پہلو بیان کیاہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویل درست نہیں۔ اس کا سبب دشمن کی آگاہی نہیں بلکہ فرشتوں کی ہمراہی سے محرومی ہے۔ جس کی وضاحت خود حدیث میں موجود ہے۔ لاَ تَصْحَبُھَا الْمَلَائِکَۃُ کہ فرشتے ان کے ہمراہ نہیں ہوتے۔یوم بدر اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی مدد ونصرت کے لیے فرشتوں کو نازل کیا۔ اس لیے بدر کے روز بطور خاص یہ حکم فرمایا کہ جانوروں کے گلے سے گھنٹیاں کاٹ دو چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَرَ بِالْاَجْرَاسِ اَنْ تُقْطَعَ مِنْ اَعْنَاقَ الْاِبِلِ یَوْمَ بَدْرٍ۔[صحیح ابن حبان :۸/۱۰۱،مسند احمد] سفر کے دوران بھی سلسلہ وحی قائم رہتا۔ اس بنا پر بھی آپ نے جر س کو جانوروں کے گلے سے کاٹنے کا حکم فرمایا۔جب اس صورت میں فرشتے ہمراہ نہیں رہتے تو مبادا وحی کا نزول ہی نہ رک جائے۔یہی بات امام ابن حبان رحمہ اللہ نے فرمائی ہے۔ ان کے الفاظ ہیں : |