انفرادی طور پر اس کی شناعت و حرمت کیوں ؟ پھر اگر موسیقی جائز اور حلال ہوتی تواس کو ’’حلال بنانے‘‘ کی مذمت کے کیا معنی ؟ اسے ’’ملعون‘‘ قرار دینے کا کیا جواز؟ شراب اور زنا کو ’’حلال بنانے ‘‘ والوں کے ساتھ موسیقی کے ذکر کا کیا مقصد؟ اور کیا ناؤنوش اور فحاشی کی مجلسوں میں حلال اور پاک اشیاء کا کھانا بھی حرام ہے؟ نہیں اور یقینا نہیں تو موسیقی جو اپنے اصل کے اعتبار سے غامدی صاحب کے نزدیک جائز اور حلال ہے تو وہ ان مجلسوں میں حرام کیسے ٹھہری؟ اس لیے موسیقی ہویا ریشم کا لباس یا سونے چاندی کے برتن ان کی حرمت ’’وقتی‘‘ یا کسی فحاشی کی مجلس سے مختص نہیں بلکہ یہ سب اپنے اصل کے اعتبار سے حرام ہیں۔ عجیب استدلال جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں : قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے مابین الدفتین موسیقی کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں۔جہاں تک روایات کا تعلق ہے تو ہم اوپر صحیح روایتیں نقل کر چکے ہیں جن سے آلات موسیقی کے جواز کا حکم مستنبط ہوتا ہے۔ موسیقی اور آلات موسیقی کے جواز کی روایتوں کے ہوتے ہوئے بخاری کی مذکورہ روایت کی بنا پر سازوں کو علی الاطلاق حرام قرار دینا،ظاہر ہے کہ کسی طرح بھی درست نہیں۔ حالانکہ سابقہ صفحات میں قران مجید کی متعدد آیات سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ صحابہ کرام نے ان سے موسیقی اور آلات موسیقی کو ناجائز سمجھا اور ان آیات کا مصداق موسیقی اور آلات موسیقی کو قرار دیا۔ اکثر تابعین کرام کا بھی یہی موقف ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ قرآن میں اس بارے میں کوئی حکم موجود نہیں خود فریبی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تو قران میں موسیقی او ر آلات موسیقی کی ممانعت نظر آگئی۔ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا،جو قرآن کے اولین مخاطب تھے،جنھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم سے قرآن سمجھا۔ مگر |